نواز طاہر:
قدرتی گیس کی فراہمی میں تعطل سے ملک بھر اور خاص طور پر کراچی میں بیشتر گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔ جبکہ اگلے دو ہفتوں تک یہی صورتحال پنجاب میں بھی دکھائی دے رہی ہے، جہاں گیس کی فراہمی میں فی الحال تعطل تو نہیں، لیکن وقفے وقفے سے پریشر میں کمی نے صارفین کیلئے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ اس تناظر میں گیس سلنڈروں کے استعمال اور نرخ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس میں اگلے ہفتے تک مزید اضافے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ یوں گیس سلنڈر بیچنے اور گیس بھرنے والوں کی چاندی ہوگئی ہے۔ جبکہ گیس دستیابی اور فراہمی کے بارے میں سرکاری طور پر بتائے جانے والے اعداد و شمار کو بھی غیر درست قراردیا جارہا ہے۔ کچھ ذرائع کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ حکومت، گیس کمپنیوں کی نجکاری کے طرف آگے بڑھ رہی ہے اور ایل این جی کو بڑھاوا دینے کیلئے صارفین کو ذہنی طور پر تیار اور ساتھ ہی ساتھ پریشان کیا جا رہا ہے۔ ذرائع نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ سردیاں بڑھنے پر گیس کے ملک گیر بحران میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
یاد رہے کہ نواز شریف دور میں پانچ سال قبل جب شاہد خاقان عباسی پیٹرولیم کے وزیر تھے تو پیٹرولیم انسٹیٹیوٹ آف پاکستان کے ذریعے ایک رپورٹ تیار کروائی گئی تھی۔ رپورٹ میں پاکستانی کمپنیوں کے پاس قدرتی گیس کے ذخائر جلد ختم ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا اور ایل این جی کی درآمد پر ذور دیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں ضمنی طور پر یہ بھی کہا گیا تھا کہ قدرتی گیس کی فوری تلاش اور پیداوار میں اضافہ ناگزیر ہے۔ لیکن گیس کی تلاش اور پیدوار میں اضافے کی طرف توجہ نہیں گئی۔ اس کے برعکس زیادہ توجہ ایل این جی کی درآمد کے منصوبوں پر کام کیا گیا۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کے دورِحکومت میں بھی قدرتی گیس کی تلاش اور پیداوار میں اضافے کی طرف دھیان نہیں دیا گیا جس کی بنیادی وجہ وزارتِ پیٹرلیم و قدرتی وسائل کے ذمہ داران کی مبینہ کرپشن، کک بیکس اور کمیشن بتائی جاتی ہے۔ جبکہ پچھلے دو عشروں میں قدرتی گیس کے اندھا دھند استعمال کیلئے سی این جی پمپوں کی سیاسی و بیوروکریٹک رشوت کے طور پر نتصیبات بڑھائی گئیں اور سستا ایندھن مشکل ترین بنادیا گیا۔ ساتھ ہی اس کی نجکاری کا عمل آگے بڑھانے کیلئے ان کمپنیوں کی رپورٹوں میں ان کے ناقابلِ عمل ہونے کی صورتحال ظاہر کی جانے لگی۔ یہاں کہ پارلیمان کو بھی ایسی رپورٹوں کی بنیاد پر بتایا گیا کہ قدرتی گیس کی مسلسل فراہمی بتدریج نا ممکن ہوتی جا رہی ہے اور اب گیس صارفین کو پائپ لائن کے بجائے سلنڈروں میں فراہم کرنا ہی ممکن ہوسکے گا۔ پارلیمانی کمیٹی کو دی جانے والی رپورٹ کے مطابق گھریلو صارفین کی چوبیس گھنٹوں میں صرف آٹھ گھنٹے گیس فراہم کرنے کا شیڈول دیا گیا تھا۔ لیکن اس کے برعکس نومبر کے وسط میں ہی آٹھ گھنٹے بھی گیس ’جھٹکوں‘ میں فراہم کی جارہی ہے۔ ناشتے، دوپہر اور رات کے کھانے کی تیاری بھی مشکل ہوگئی ہے۔ کوئٹہ، پشاور، کراچی، حیدرآباد، ملتان اور لاہور سمیت تمام بڑے شہروں میں گھریلو صارفین شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ لیکن سب سے ابتر حالت کراچی کی ہے جہاں پوش علاقوں میں بھی ماضی کے برعکس گیس کا پریشر انتہائی کم ہے اور زیادہ تر اوقات میں پائپ لائن گیس کے ساتھ سلنڈر کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
کوئٹہ سے اشتیاق احمد نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’شدید سردی کے باوجود سوئی سدرن گیس حکام اور حکومت کو شہریوں کی حالت پر ترس نہیں آتا۔ میرا گھر مین روڈ پر ہے جہاں سے گیس کی بڑی پائپ لائن گذرتی ہے۔ رات کو اچانک ہیٹر بند ہوجاتا جبکہ گنجان آباد علاقوں میں حالت زیادہ خراب ہے، جہاں کھانے پکانے میں بھی دشواری کا سامنا ہے۔ جبکہ ابھی سردی مسلسل بڑھ رہی ہے تو انسان زندہ کیسے رہیں گے؟‘‘ ایسی ہی صورتحال پشاور سے محمد نعیم خان بیان کرتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’’پشاور میں سب سے ابتر حالات ہیں میرے گھر میں گیس اس قدر کم آتی ہے کہ سلنڈر کے استعمال کے بغیر کھانے پکانا ممکن نہیں رہا۔‘‘ کراچی میں ملیر کینٹ جیسے پوش ترین علاقے میں بھی گیس کی فراہم تو جاری ہے، لیکن پریشر انتہائی کم ہے۔ جبکہ کورنگی اورگنجان علاقوں میں صورتحال مزید ابتر ہے۔ کلفٹن کے رہائشی جی آر پاشا کا کہنا تھا کہ ’’گیس فراہمی خواب ہی بن گیا ہے۔ جس قدر بل آتے ہیں، اس سے نصف بھی گیس آجائے توہم سمجھیں کہ چلیں رو پیٹ کر زندہ رہ سکتے ہیں۔ بل ایسے آتے ہیں جیسے سوئی گیس والوں نے کے الیکٹرک کے ساتھ بلوں کا مقابلہ کرنا ہے۔‘‘
اس ضمن میں سوئی سدرن گیس کمپنی کے ایک انجینئر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بتایا کہ پرانی اور بوسیدہ پائپ لائنیں اب گیس کی فراہمی کیلئے کم و بیش ناکارہ ہوچکی ہیں۔ جیسے ہی موسم سرد ہونا شروع ہوتا ہے تو یہ پائپ لائنیں مزید ناکارہ ہوجاتی ہیں۔ اور اس کا اثر سردی کے ساتھ بڑھ جاتا ہے۔ خاص طور پر کوئٹہ ریجن بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پرانی لائنوں کی حالت بہتر بنانے کے حوالے سے جاننا ہے تو صرف صوئی سدرن گیس کمپنی میں میگیشیم کے استعمال کے اعداد و شمار ہی چیک کرلیں۔ معلوم ہو جائے گا کہ کتنی لائینیں صاف ہوئی ہوں گی۔ انہوں نے بتایا کہ اب نئی پائپ لائن پلاسٹک کی ڈالی جارہی ہے۔ جہاں تک گیس کی لوڈ شیڈند کا تعلق ہے تو اس ضمن میں پالیسی اور لوگ بناتے ہیں۔ البتہ یہ واضح ہے کہ گرمیوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے اور سردیوں میں لوڈ میجمنٹ کی جاتی ہے۔ سردیوں میں والو کو مخصوص وقت میں ہلکا سا گھمایا جاتا ہے اور اس سے پریشر کم ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں کھانے پکانے کے اوقات کے علاوہ گیس کی لیکیج کا امکان کم کیا جاتا ہے۔ اگر کھانے پکانے کے دوران گیس کا پریشر کم ہوتا ہے تو یہ بدنیتی پر مبنی ہے۔
پرانی اور بوسیدہ پائپ لائنوں کے حوالے سے سوئی ناردرن گیس کمپنی کے ترجمان امجد گلزار کا کہنا تھا کہ لاہور میں ان پائپ لائنوں پر کام کیا گیا ہے اور اس کے مثبت اثرات سامنے آئے ہیں اور یہ اب سوئی ناردرن نے مستقل فیچر بنا لیا ہے ۔ انہوں نے لاہور میں گیس کی لوڈ شیڈنگ اور سپلائی بند ہونے یا معطل ہونے کی بھی نفی کی اور کہا کہ گیس کے پریشر میں کمی کا مسئلہ ایسی پائپ لائنوں کے آخری سرے کے صارفین کے ساتھ کسی حد تک در پیش ہے۔ ہمارے پاس پاور سیکٹر کو دی جانے والی گیس میں بچت ہوئی ہے۔ کیونکہ ایئرکنڈیشنر اور اس طرح کا دیگر استعمال کم ہونے سے پاور سیکٹر کو گیس کی پہلے جیسی ضرورت نہیں۔ ہم نے یہ گیس ودڈرا کرلی ہے اور سوئی ناردرن کے پاس یومیہ دو سو ملین مکعب فٹ گیس اضافی ہے۔
اس کے برعکس سوئی نادرن گیس پاپئپ لائن کے صارفین گیس کا پریشر کم ہونے پر دہائی دیتے ہیں اور شہر بھی سے گیس کی کم فراہمی کی شکایات عام ہیں۔ خاص طور پر گنجان آبادی والے علاقوں میں گیس صارفین سراپا احتجاج ہیں۔ سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کے ترجمان کی طرف سے فراہم کیے جانے والے اعداد و شمار کے برعکس اسی ادارے سے منسلک ٹھیکیدار گیس صارفین کی شکایات کی تصدیق کرتے ہیں اور وہ بھی سوئی ناردرن گیس کمپنی کے اعداد و شمار کو غیر درست قراردیتے ہیں۔ یہی موقف مائع پیٹرلیم گیس ( ایل پی جی ) کی فروخت سے متعلقہ کاروباری افراد کا بھی ہے جن کا کہنا ہے کہ سوئی ناردرن کمپنی عوام کو درست حقائق نہیں بتاتی۔ ان کے مطابق سوئی ناردرن گیس کمپنی کے پاس گیس ہی دستیاب نہیں۔ حکومت بھی عوام کو گمراہ کررہی ہے اور ایل این جی پر اربوں روپے خرچ کررہی ہے۔ یہی اخرجات ایل پی جی پر کیے جائیں تو عوام کا بھلا ہوسکتا ہے۔ لیکن ایل پی جی پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا گیا ہے اور ایل این جی پر اس لئے زور دیا جارہا ہے کہ اس میں اربوں روپے کا خرچہ ہے جس میں کمیشن اور دیگر ’کھانچے ‘ بھی ہیں ۔
ایل پی جی ڈسٹری بیوٹرز ایسو سی ایشن کے رہنما عرفان کھوکھر نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’’حکومت اگر ایل پی جی پر ایل این جی کی طرز پر کچھ رعاتیں دے تو ہم حکومت سے بہتر اور سستی سپلائی فراہم کرسکتے ہیں اور یہی عوام کے مفاد میں بھی ہے۔‘‘ سوئی ناردرن کمپنی کے ساتھ کام کرنے والے ٹھیکیداروں کی تنظیم کے لاہورکے صدر میاں اخلاق نے شیخپورہ میں ٹھیکیداروں کی ادائیگیاں نہ ہونے پر لائحہ عمل تیارکرنے کے حوالے سے جاری اجلاس کے دوان ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’سوئی ناردرن گیس کمپنی نے صارفین کو بلیک میل کرنا شروع کردیا ہے اور جبری طور پر ایل این جی خریدنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ تاکہ ایل این جی کی زیادہ سے زیادہ کھپت ہوسکے۔‘‘ دوسری جانب سوئی سدرن گیس کمپنی کے ایم ڈی عمران منیار سمیت کوئی ذمہ دار حقائق بیان کرنے کو تیار نہیں۔ جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ سوئی سدرن گیس کمپنی میں جس قدر کرپشن کرکے اس کا بیڑا غرق کیا گیا ہے، اس کے پیشِ نظر حکام حقائق بتانے سے کتراتے ہیں۔ اس نفع بخش اور مستحکم ادارے کو پہنچنے والے نقصان اور اس کے خلاف ہونے والی سازش اس کے فرانزک آڈٹ سے بے نقاب ہوسکتی ہے، جس میں اس کے دو عشروں کے مینجنگ ڈائریکٹروں اور کچھ مینجیروں سے تحقیقات کرلی جائیں تو صورتحال واضح ہوجائے گی۔ جبکہ ماضی میں کچھ عہدیداوں کو حراست میں بھی لیا گیا، لیکن مک مکا کرکے چھوڑدیا گیا۔ جبکہ یہ لوگ ابھی بھی کمپنی میں خاص اثر رسوخ رکھتے ہیں اور کمپنی کی تباہی کی پالیسیوں پر گامزن ہیں۔