نمائندہ امت:
تحریک انصاف نے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی پر مستعفی ہونے کے لیے دبائو بڑھا دیا ہے۔ لیکن چیئرمین سینیٹ کا کہنا ہے کہ وہ آئینی طریقے سے انہیں عہدے سے ہٹانے کیلئے تحریک عدم اعتماد لے آئیں، وہ اس کا مقابلہ کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینیٹ پر پی ٹی آئی کے تحفظات اس وقت شروع ہوئے جب اعظم سواتی کو گرفتار کیا گیا اور صادق سنجرانی پر تحریک انصاف نے دبائو ڈالا کہ وہ اعظم سواتی کے پروڈکشن آرڈر جاری کریں۔ لیکن صادق سنجرانی اس وقت اسلام آباد میں موجود نہ تھے، جس پر پی ٹی آئی کے سینیٹر نے ان پر الزام لگایا کہ وہ جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جان بوجھ کر کراچی چلے گئے تھے۔ جب کہ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اصل حقائق اس کے بھی برعکس آرمی ایکٹ میں تبدیلی کے تناظر میں ہیں۔
ذرائع کے مطابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جب صدر مملکت عارف علوی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بھی صادق سنجرانی پر مستعفی ہونے کے لیے دبائو ڈالا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات پر صادق سنجرانی نے انہیں کہا کہ وہ ایک آئینی اور باوقار ادارے کے چیئرمین ہیں۔ وہ کسی کے کہنے یا خواہش پر استعفیٰ نہیں دے سکتے۔ اگر انہیں ہٹانا ہے تو آئین میں اس کا طریقہ موجود ہے۔ جس پر صدر مملکت نے انہیں یاد دلایا کہ وہ انہی کی جماعت کی سپورٹ سے چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔ اس پر صادق سنجرانی نے جواب دیا کہ وہ تحریک انصاف کی سپورٹ سے نہیں، بلکہ ان کی سپورٹ سے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے جن کی منشا پر عمران خان اور صدر مملکت منتخب ہوئے۔ اس بات پر عارف علوی وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔
یاد رہے کہ جولائی 2019ء میں صادق سنجرانی کے خلاف متحدہ اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی تھی۔ اور زور دیا تھا کہ صادق سنجرانی مستعفی ہو جائیں کیونکہ ان کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل سید نیر حسین بخاری نے کہا تھا کہ سینیٹ میں اپوزیشن کو عددی اکثریت حاصل ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ چیرمین سینیٹ مستعفی ہو جائیں۔ لیکن صادق سنجرانی اس وقت بھی ڈٹے رہے اور آخر کار وہ پیپلز پارٹی کے امیدوار سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں تحریک عدم اعتماد سے پر اعتماد طریقے سے فتح یاب ہوئے۔ اب دوبارہ ان پر مستعفی ہونے کا دبائو ہے۔
ذرائع نے اس حوالے سے انکشاف کیا کہ بظاہر تو معاملہ یہ دکھائی دیتاہے کہ جب اعظم خان سواتی کو ایف آئی اے نے گرفتار کیا تو سینیٹ میں متحدہ اپوزیشن نے ان کے پروڈکشن آرڈر کے لے سینٹ میں باقاعدہ درخواست جمع کرائی۔ اور اعظم سواتی کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہوسکے۔ اس کا ذمہ دار بھی تحریک انصاف، چیئرمین سینٹ کو قرار دیتی ہے اور اس کا ماننا ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے پے رول پر یہ سب کچھ کررہے ہیں۔ لیکن یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے، بلکہ معاملہ کسی بل کے حوالے سے سامنے آرہا ہے جس میں ترمیم کے بعد اسے سینیٹ سے منظور کرانا ہے۔ علاوہ ازیں صادق سنجرانی پر جانبداری کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔
سینیٹر فیصل جاوید نے صادق سنجرانی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ حکومت کی طرف داری کر رہے ہیں۔ تو اس پر چیئر مین سینیٹ نے کہا تھا کہ میرے والد بیمار تھے اور میں کراچی میں تھا۔ جس پر فیصل جاوید نے بھڑکتے ہوئے کہا تھا کہ آپ حکومت کے چیئر مین ہیں یا ہمارے چیئر مین ہیں؟ تو صادق سنجرانی نے کہا کہ وہ ہاؤس کے چیئرمین ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اب جو تحریک انصاف کی طرف سے دبائو ڈالا جارہا ہے وہ آرمی ایکٹ میں ترمیم پر تحفظات کے حوالے سے ہے۔ تحریک انصاف اس ایکٹ پر جم کے مخالفت کررہی ہے اور اسے اندازہ ہے کہ اگر صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ برقرار رہے تو قومی اسمبلی سے ہوتا ہوا یہ بل سینیٹ میں ان کی اکثریت ہونے کے باوجود اسی طرح منظور ہوجائے گا، جیسے 2019ء میں اپوزیشن کی اکثریت ہونے کے باوجود عدم اعتماد میں اپوزیشن کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کے حوالے سے ذرائع نے دعویٰ کیا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے آرمی ایکٹ میں مبینہ ترمیم پر مشاورت سے متعلق خبروں میں کسی حد تک صداقت ہے۔ جس کے تحت مذکورہ قانون کے سیکشن 176 اے میں ’تعیناتی‘ کے لفط کو ’برقرار‘ سے ممکنہ طور پر تبدیل کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ پی ٹی آئی کی جانب سے صادق سنجرانی کو کنارے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین نے جہلم میں جلسے سے خطاب کے دوران آرمی ایکٹ میں تبدیلی کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ’’آرمی چیف کا میرٹ پر فیصلہ ہونا چاہیے۔ ان کی بات نہیں کر رہا جنہوں نے آرمی چیف لگنا ہے، میں تو ان کی بات کر رہا ہوں جنہوں نے آج تک کوئی شفاف کام نہیں کیا۔ آرمی ایکٹ میں حکومت چینج لیکر آرہی ہے۔ حکمران اداروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ایک دو دن میں راولپنڈی جانے کا پلان دوں گا‘‘۔