خط کی کاپی وزیراعظم آفس اور پی ٹی آئی جنرل سیکریٹری اسد عمر کو بھی بجھوائی گئی ہے۔فائل فوٹو
خط کی کاپی وزیراعظم آفس اور پی ٹی آئی جنرل سیکریٹری اسد عمر کو بھی بجھوائی گئی ہے۔فائل فوٹو

’’پنجاب حکومت کڑے امتحان سے دوچار‘‘

نواز طاہر:
پی ٹی آئی لانگ مارچ کی کئی شکلیں بدلنے کے بعد راولپنڈی کے حتمی مرحلے میں پنجاب حکومت کڑے امتحان سے دوچار ہے۔ جبکہ اس مارچ کے اگلے مرحلے میں ’’دھرنے‘‘ کے ممکنہ فیصلے پر عمران خان سے مشاورت جاری ہے۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ عمران خان، مظاہرین کی تعداد اور حالات کے سازگار ہونے پر کریں گے۔
یاد رہے کہ عمران خان نے ہفتے کے روز کارکنوں کو آئندہ ہفتے راولپنڈی پہنچنے کی کال دی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ راولپنڈی میں خود قیادت کریں گے۔ عمران خان کے اس اعلان کے بعد پی ٹی آئی کارکنوں نے نئے سرے سے صف بندی شروع کردی ہے۔ جس میں لاہور کے علاوہ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، میانوالی، ملتان، رحیم یار خان اور فیصل آباد کے عہدیداروں کو خصوصی ٹارگٹ دیئے گئے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کے ذرائع اس حوالے سے تحفظات کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ٹارگٹ پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
ان ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈروں کو اپنے اپنے حلقے سے کم از کم تین ہزار افراد کو جمع کرنے کا جو ٹارگٹ دیا گیا تھا، وہ لانگ مارچ کے ابتدائی مرحلے میں بمشکل پورا ہوچکا تھا، جبکہ اس وقت قیادت عمران خان خود کر رہے تھے۔ لیکن اب مزید اتنی تعداد میں کارکنوں کو راولپنڈی لے جانا انتہائی مشکل ہے۔ جبکہ سردی کی شدت بھی بڑھ گئی ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک ٹکٹ ہولڈر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ، میں نے تین کے بجائے ساڑھے تین ہزار افراد کو مارچ میں شرکت کرکے مختصر وقت کے بعد راولپنڈی لے جانے کی جو پلاننگ اور انتظامات کئے تھے، وہ اب مکمل طور پر درہم برہم ہوگئے۔ موسم کی شدت کی وجہ سے دیہاڑی دار طبقہ بھی ساتھ چلنے سے ہچکچا رہا ہے اور بڑی تعداد میں کارکن چاول کی کٹائی میں مصروف ہوگئے ہیں۔ ہماری پلاننگ میں خرابی راولپنڈی پہنچنے کا شیڈول تبدیل ہونے سے خراب ہوئی ہے۔ اب میرے لئے پانچ سو کارکن بھی جمع کرنا بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ اسی طرح جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک رکن صوبائی اسمبلی نے بتایا کہ، ہم نے پی ٹی آئی میں شمولیت کچھ اصولوں پر کی تھی اور اب بھی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن ہم اپنے کارکنوں کو موسمی شدت کے حوالے کرنے کا رسک نہیں لے سکتے۔ اور نہ ہی ہمارے کارکنوں کا یہ مزاج ہے۔ ان کی زیادہ تر تعداد کاشتکاری اور محنت مزدوری سے وابستہ ہے۔ الیکشن میں وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن انہیں سینکڑوں میل کا سفر کرکے کھلے میدان میں غیر معینہ مدت تک بٹھانا ممکن نہیں۔ اور پھر یہ بھی واضح نہیں کہ راولپنڈی پہنچ کر کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
لاہور میں پی ٹی آئی کے جلسوں میں ہلہ گلہ کرکے سیاسی ماحول گرما والی ایک خاتون رہنما نے انکشاف کیا کہ پچھلے تین دن سے وہ مسلسل ’’پارٹیوں‘‘ کا اہتمام کر رہی ہیں اور کارکنوں کو موبلائز کر رہی ہیں۔ لیکن دو فیصد کارکن بھی راولپنڈی جانے کے رضامند نہیں۔ ان خاتون رہنما کے مطابق یہ کارکنان لاہور میں لبرٹی اور ڈیفنس میں متبادل کیمپ لگانے کے لئے تو تیار ہیں، لیکن راولپنڈی جانے سے خائف ہیں۔ اس خوف کی وجہ وزیر آباد میں فائرنگ کا واقعہ اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کا آمنے سامنے آنا ہے۔ اگرچہ یہ صورتحال چند سال پہلے بھی تھی۔ لیکن تب حالات مختلف تھے اور تصادم کا خطرہ نہیں تھا۔ ان خاتون رہنما نے قدرے بے بسی کے ساتھ کہا کہ، اب کارکن سوال اٹھانے لگتی ہیں اور فرح گوگی کے ساتھ بشریٰ بی بی کا تذکرہ بھی کرنے لگے ہیں۔ پی ٹی آئی کی ایک اور خاتون رہنما نے بتایا کہ ہم عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں، مگر اپنے طلبا و طالبات کو بھیڑ بکریوں کی طرح جلسوں میں نہیں ہانک سکتے۔
ذرائع کے مطابق بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح راولپنڈی میں ساٹھ ستر ہزار افراد کو جمع کیا جاسکے۔ لیکن یہ ٹارگٹ مشکل ہوتا جارہا ہے۔ جبکہ بہت سے صوبائی محکموں کے ان ملازمین نے بھی ساتھ چلنے سے انکار کردیا ہے، جو گھوسٹ ملازمین کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان میں یہ خوف پھیل چکا ہے کہ وفاقی حکومت کے زیر انتظام انٹیلی جنس ادارے ان کے بارے میں معلومات جمع کر رہے ہیں۔
ادھر پنجاب حکومت کی بیوروکریسی لانگ مارچ کے حوالے سے شدید تذبذب میں ہے اور سب سے مشکل صورتحال کا سامنا محکمہ داخلہ کو ہے۔ ذرائع کے مطابق بیوروکریسی کو لانگ مارچ کے حوالے سے انتظامات اور خاص طور پر پولیس پر اٹھنے والے اخراجات میڈیا سے شیئر نہ کرنے کی سخت ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ جبکہ وزیر اعلیٰ کی طرف سے لانگ مارچ اور راولپنڈی مارچ کے شرکا کو مکمل سیکورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ لیکن ذرائع، محکمہ داخلہ کی بعض مشکلات کے حوالے سے تفصیلات فراہم کرنے سے گریزاں ہیں کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں وفاقی اور صوبائی انتظامیہ مقابل آئیں، تو کیا صورتحال ہوگی۔ تاہم پنجاب محکمہ داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ شاید ایسی نوبت ہی نہ آئے۔ عمران خان جو فیصلے کرنا چاہتے ہیں، ممکن ہے کہ ان کے لئے سازگار حالات ہی نہ بن سکیں۔