اسلام آباد: آئین پاکستان کی دفعہ 48 کے تحت صدر مملکت عارف علوی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ سمری موصول ہونے کے بعد 15 دن کے اندر سمری کو نظر ثانی کے لیے وزیراعظم کو واپس بھیج سکتے ہیں ۔
ماہرین و تجزیہ کاروں کے مطابق صدر پاکستان آئین کے اندر رہ کر معاملہ لٹکانے کا اختیار رکھتے ہیں لیکن آخرکار ہو گا وہی جو وزیراعظم چاہیں گے۔
دوسری جانب حکومت نے پی ٹی آئی چیئرمین کے بیان کے بعد حکومت نے اہم تعیناتیوں کے لیے متبادل آپشنزپرغورشروع کردیا۔
صدر کی طرف سے وزیراعظم کی ایڈوائس روکنے کی صورت میں حکومت کا پلان بی سامنے آ گیا، جس کے مطابق حکومت سیکرٹری کابینہ سے رولز آف بزنس میں ترمیم کا نوٹیفکیشن جاری کروائے گی اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، آرمی چیف کی تقرری کی سفارش کو فہرست سے نکال دے گی۔
ذرائع سیکریٹری کابینہ کے نوٹیفکیشن کے بعد وزیراعظم آفس صدر کو بھیجی گئی سمری واپس لے لے گا، ایوان صدر کو بھیجی گئی سمری واپس لے کر وزیراعظم خود تقرریوں کی منظوری دے دیں گے،حکومت کابینہ اجلاس میں رولز آف بزنس 1973 کے رول 15- اےمیں ترمیم کی منظوری لے سکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق کابینہ سے منظوری لئے بغیر بھی وزیراعظم رول 57 کے تحت رولز میں ازخود نرمی کا اختیار رکھتے ہیں، کابینہ سے رولز میں تبدیلی کی منظوری لی جائے یا وزیراعظم خود رولز میں نرمی کریں۔
ادھروزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے اگر صدر مملکت نے تقرری کے معاملے پر رکاوٹ ڈالی تو ہمارے پاس پلان بی بھی موجود ہے۔
گزشتہ روزتحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا تھا کہ صدر اورمیں نے فیصلہ کیا ہے ہم قانون کے اندر رہ کرکھیلیں گے جو بھی کریں گے آئین اور قانون کے درمیان میں رہے گا، یہ نوے کی دہائی کے سیاستدان ہیں ان کا وقت ختم ہوگیا ہے، یہ صرف یہ امید رکھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے کندھے پر چڑھ کر آئیں۔