عمران خان:
پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ غیر ملکی فنڈنگ تحقیقات میں جلد از جلد براہ راست چیئرمین تحریک انصاف اور انکوائری میں زیر تفتیش دیگر اہم رہنمائوں کو نامزد کرکے مقدمہ درج کرنے کے لیے اہم پیش رفت شروع ہوگئی ہے۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق اس حوالے سے تفتیشی ٹیموں کے اراکین اور مالیاتی جرائم کی تفتیش کے ماہر افسران سے مشاورت کا عمل تیزکردیا گیا ہے۔ جبکہ غیر ملکی فنڈنگ کیس میں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت بھی کارروائی کا آغازکردیا گیا ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کی ہدایات پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کی جانب سے گزشتہ دنوں ماہر افسران کو طلب کرکے ہر قانونی پہلو پر تفصیلی بات چیت کی گئی، جس میں افسران کی رائے بھی حاصل کی گئی۔ واضح رہے کہ ایف آئی اے میں اس وقت پاکستان تحریک انصاف کیخلاف ممنوعہ غیر ملکی فنڈنگ پر کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں تین کیس زیرِ تفتیش ہیں۔ جبکہ الیکشن کمیشن کی درخواست پر بیرون ملک سے ممنوعہ فنڈنگ کی ترسیل اور بے نامی اکائونٹس کے ذریعے ان فنڈز کی آگے پارٹی رہنمائوں کو منتقلی کے الزامات پر ایک بڑی انکوائری علیحدہ سے جاری ہے، جس پر جے آئی ٹی کام کر رہی ہے۔ اس انکوائری میں تحریک انصاف کے متعدد مرکزی رہنمائوں کو پوچھ گچھ کے لئے نوٹس دے کر طلب کیا گیا ہے۔ اور متعلقہ بینکوں سے ریکارڈ بھی حاصل کرلیا گیا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کھاتے داروں سے تفتیش اور مقدمہ کا اندراج سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ایک پٹیشن کی وجہ سے رکا ہوا ہے، جس میں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ایف آئی اے کو انکوائری مکمل کرکے تفصیلی رپورٹ 6 دسمبر کو جمع کروانے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے افسران پر امید ہیں کہ انہوں نے تیزی سے کام کرتے ہوئے کئی مضبوط شواہد جمع کر لئے ہیں۔ جنہیں عدالت کے سامنے رکھ کر انکوائری میں مقدمہ درج کرنے اور نامزد پی ٹی آئی رہنمائوں سے پوچھ گچھ کرنے کی اجازت حاصل کی جاسکتی ہے۔
موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق رواں برس اگست کے آخر میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے دی جانے والی ہدایات پر ایف آئی اے میں پی ٹی آئی کیخلاف ممنوعہ غیر ملکی فنڈنگ پر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔ کراچی کے زونل ہیڈ کوارٹر سے اس کام کے لئے سابق ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی عبد اللہ شیخ کی جانب سے مراسلہ نمبرNo. FIA/DSK-ENG-NEW/2022/CBCK/s 82.98-99 پر خصوصی تحقیقاتی ٹیم کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔ جس میں فنانشل کرائمز اور منی لانڈرنگ کی انکوائریوں اور کیسوں کا خصوصی تجربہ رکھنے والے ایف آئی اے کے سینئر افسر اسسٹنٹ ڈائریکٹر عبدالرائوف شیخ کو مقرر کیا گیا۔ جبکہ اس ٹیم میں معاونت کے لئے انسپکٹر سبین غوری، انسپکٹر آفتاب وٹو اور سب انسپکٹر راحت خان کو شامل کیا گیا جو پی آئی اے، سول ایوی ایشن، جعلی لائسنس اور دیگر اہم کیسوں کے تفتیشی افسر بھی رہ چکے ہیں۔
موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے انکوئری ٹیم کے ممبر انسپکٹر آفتاب وٹو نے بینکوں سے پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کا ریکارڈ طلب کرلیا۔ جس میں حبیب بینک اور بینک اسلامی میں پاکستان تحریک انصاف کے چار بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات فوری طلب کرلی گئیں۔ جس میں پی ٹی سندھ چیپٹر، پی ٹی آئی سندھ پی ایس 113 اور پی ٹی آئی خواتین ونگ کے اکائونٹس شامل ہیں۔ دستاویزات کے مطابق پی ٹی آئی سندھ کا اکاؤنٹ نمبر 00127900182203 حبیب بینک کی مقامی برانچ میں ہے۔ پی ٹی آئی سندھ کے پی ایس 113 کا اکاؤنٹ 00127900203803 بھی اسی بینک میں ہے۔ پی ٹی آئی ویمن ونگ سندھ کے حبیب بینک میں اکاؤنٹ نمبر 00127900239403 اور بینک اسلامی پاکستان میں پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ نمبر 19109377001 بھی شامل ہیں، جن میں آنے والی اور نکالی جانے والی رقوم کی ٹرانزیکشنز کا تمام ریکارڈ بینکوں سے طلب کرلیا گیا۔
مذکورہ انکوائری میں ایف آئی اے کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل سمیت دیگر رہنمائوں کو طلبی کے نوٹس جاری کئے گئے، جنہوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔ ان تمام درخواستوں پر آخری سماعت رواں ماہ 3 نومبر ہوئی جس میں ایف آئی اے کی جانب سے جمع کروائے گئے تفصیلی جواب میں آگاہ کیا گیا کہ متنازعہ بینک اکاؤنٹس درخواست گزاروں کے نام پر کھولے گئے۔ جس پر ایف آئی اے کی پانچ رکنی ٹیم کراچی میں تحقیقات کر رہی ہے۔ معزز عدالت کو مزید بتایا گیا کہ پی ٹی آئی میڈیا سینٹر کراچی کے نام سے بھی ایک بینک اکاؤنٹ کھولا گیا۔ ایف آئی اے کی جانب سے استدعا کی گئی کہ ایف آئی اے مقدمہ درج کرنا چاہتی ہے، لیکن عدالتی حکم امتناعی سے کارروائی متاثر ہو رہی ہے۔ اس پر سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ ایف آئی اے پہلے انکوائری مکمل کرے، جبکہ عدالت حکم امتناعی کے معاملے پر اگلی سماعت پر غور کرے گی۔ بعد ازاں سماعت 6 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل میں عارف نقوی کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کو بھیجے گئے فنڈز پر درج ہونے والے مقدمہ میں بھی ایف آئی اے کی ٹیم نے نہ صرف مضبوط چالان پیش کرنے کیلئے چھان بین تیز کردی ہے۔ بلکہ ایک نجی بینک یوبی ایل کے ملوث افسران اور غفلت برتنے والی انتظامیہ کے افراد کا تعین کرکے انہیں کیس میں شامل کرنے کے حوالے سے تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا ہے۔ اس مقدمہ کے مطابق مذکورہ افراد، ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی کی جانب سے غیر ملکی فنڈنگ کا بڑا فائدہ اٹھانے والوں میں سے تھے۔ انہوں نے ابراج انویسٹمنٹ مینجمنٹ، امان فاؤنڈیشن، گرے میکنزی ہولڈنگز، سلور لائن ہولڈنگز اے ٹی ایف امان سے غیر ملکی ٹیلی گرافک ٹرانسفرز حاصل کیں۔
ایف آئی اے کو ایسے شواہد ملے ہیں کہ نجی بینک افسران کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے فنڈز کو بینک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مشکوک ٹرانزیکشنز اور بے نامی اکائونٹس کے ذریعے منتقلی کا موقع دیا گیا۔ جبکہ قواعد کے خلاف بینک کی جانب سے ایس ٹی آر ( مشکوک ٹرانزیکشن ) رپورٹ بھی اسٹیٹ بینک اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو نہیں ارسال کی گئی، جس سے معاملہ برسوں تک دبا رہا۔ اس ضمن میں تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ مئی 2013ء کو اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک لمیٹڈ، آئی آئی چندریگر روڈ مین برانچ کراچی میں طارق شفیع کے نام سے 5 کروڑ 62 لاکھ سے زائد روپے پاکستان تحریک انصاف کے اکاؤنٹ یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، جناح ایونیو برانچ، اسلام آباد میں جمع کرائے گئے۔ اسی سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، طارق شفیع اور محمد رفیق لاکھانی کو رواں ماہ کی پہلی تاریخ کو تفتیش میں پیش ہونے کی نوٹس بھی جاری کئے گئے، تاہم یہ افراد تاحال پیش نہیں ہوئے ہیں۔ جبکہ یہ تمام رہنما اس وقت عبوری ضمانت پر ہیں۔ عمران خان کی ضمانت میں کراچی کی خصوصی عدالت کی جانب سے 14 دسمبر تک کی توسیع کی گئی ہے۔