امت رپورٹ:
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر اگلا مہینہ بھاری ہو سکتا ہے۔ یا کم از کم اس مہینے سے ان کے لیے مشکلات کا آغاز ہونے جارہا ہے۔ دسمبر میں اوپر تلے تین اہم مقدمات کی سماعت ہے۔ ان میں سے دو کیسز ایسے ہیں۔ جن کے فیصلے ان کی نااہلی کی صورت میں بھی سامنے آسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ تیسری بار ہو گا کہ ان پر انتخابی سیاست کے دروازے بند ہو جائیں۔ قبل ازیں عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن پاکستان نااہل قرار دے چکا ہے اور اس وقت یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہے۔
دسمبر شروع ہونے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کے عدالتی چکروں کا آغاز آٹھ تاریخ سے ہو گا۔ اس تاریخ کو توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کو ضلعی عدالت نے طلب کر رکھا ہے۔ جہاں ان کے خلاف فوجداری کارروائی چل رہی ہے۔ جس کا آغاز بائیس نومبر کو ہوا تھا۔ تاہم عمران خان طلب کیے جانے کے باوجود پیش نہیں ہوئے تھے۔ جس پر عدالت نے سماعت آٹھ دسمبر تک ملتوی کر دی تھی۔ یاد رہے کہ توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کو جھوٹے بیانات حلفی جمع کرائے جانے پر الیکشن کمیشن نے ایک ماہ قبل نااہل قرار دیا تھا۔ اور اب اس کیس میں ضلعی عدالت نے کرمنل پروسیڈنگ شروع کر رکھی ہے۔ قریباً دو ہفتے پہلے الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ کورٹ کو ریفرنس بھیجا تھا کہ بطور وزیر اعظم بیرون ملک سے ملنے والے تحائف کے بارے میں حکام کو گمراہ کرنے پر عمران خان کے خلاف فوجداری قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔ اور یہ کہ سابق وزیر اعظم کو الیکشن ایکٹ دو ہزار سترہ کے سیکشن ایک سو سڑسٹھ اور سیکشن ایک سو تہتر کے تحت تین برس قید اور جرمانہ کیا جائے۔
الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کے بقول توشہ خانہ کیس کافی خطرناک ہے۔ اگر ہائی کورٹ کی جانب سے اس کیس میں عمران خان کی نااہلی ختم بھی کر دی جاتی ہے تو فوجداری مقدمے میں ان کا سزا سے بچنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کنور دلشاد کا مزید کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم مزید تین چار پیشیوں پر ضلعی عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو ان کے خلاف فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے۔ فرد جرم عائد ہونے کے بعد بھی عمران خان نے غیر حاضری کا سلسلہ جاری رکھا تو پھر یکطرفہ طور پر کیس کا فیصلہ بھی سنایا جا سکتا ہے۔ کنور دلشاد کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ضلعی عدالت کے جج نے عمران خان کو اس کیس میں تین برس کی سزا سنا دی تو الیکشن کمیشن انہیں پانچ برس کے لیے نااہل قرار دینے کا مجاز ہے۔
دسمبر میں سب سے اہم سماعت ممنوعہ یا فارن فنڈنگ کیس کی ہے۔ واضح رہے کہ اس کیس میں الیکشن کمیشن پاکستان اپنا فیصلہ سنا چکا ہے۔ جس میں قرار دیا ہے کہ پی ٹی آئی کو غیر ملکی فنڈنگ ہوتی رہی اور تین درجن سے زائد غیر ملکی کمپنیوں سے پیسہ وصول کیا گیا۔ اب اس کیس میں الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے سزا کا تعین کرنا باقی ہے۔ قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس دے رکھا ہے۔ جس کا تحریری جواب پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں جمع کرانا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور کی جانب سے مسلسل مہلت طلب کی جاتی رہی ہے۔ جبکہ دو بار خود الیکشن کمیشن نے اس کیس کو ڈی لسٹ کیا۔ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس کیس کی ابتدائی سماعت تئیس اگست کو کی تھی۔ بعد ازاں سات نومبر اور پھر پندرہ نومبر کو کیس ڈی لسٹ کر دیا گیا۔ تئیس نومبر کو ہونے والی آخری سماعت کے موقع پر پی ٹی آئی کے معاون وکیل الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ انور منصور ایڈووکیٹ ملک سے باہر ہیں۔ وہ انتیس نومبر کو وطن واپس آئیں گے۔ لہٰذا انہیں شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرانے کے لیے مزید مہلت دی جائے۔ چیف الیکشن کمشنر نے یہ ریمارکس دیتے ہوئے کہ معاملہ ختم ہو چکا ہے۔ مزید تحقیقات کی ضرورت نہیں۔ کیس کی سماعت تیرہ دسمبر تک ملتوی کر دی تھی۔
اس کیس سے جڑے ذرائع کا کہنا ہے کہ فیصلہ تیار ہے۔ ٹھوس شواہد کی بنیاد پر غیر قانونی ذرائع سے آنا والا غیر ملکی پیسہ لازمی ضبط ہونا ہے۔ تاہم اس کیس میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی ایک بار پھر تاحیات نااہلی کے امکانات قوی ہیں۔ تیرہ دسمبر کی سماعت بڑی اہم ہے۔ اس موقع پر الیکشن کمیشن فیصلہ محفوظ کر کے اگلے تین چار ہفتوں میں سنا سکتا ہے۔ اگر تیرہ دسمبر کی سماعت پر بھی انور منصور پیش نہیں ہوئے تو پی ٹی آئی کے جونیئر وکیل کی موجودگی میں ہی الیکشن کمیشن فیصلہ محفوظ کر سکتا ہے۔ ذرائع کے بقول پی ٹی آئی کی خواہش تھی کہ اس اہم ترین کیس کو زیادہ سے زیادہ طول دے۔ تاکہ اس دوران سسٹم میں کوئی ایسی تبدیلی ہو جائے۔ جس سے بچت کا راستہ نکل آئے۔ لیکن یہ خواہش پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ پورا سسٹم تبدیل ہونے جارہا ہے۔ جس کے اثرات دسمبر، جنوری میں ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پیسہ ضبطگی کے ساتھ عمران خان کی نااہلی کے بارے میں ذرائع کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن پاکستان نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ جمع کرائے گئے سرٹیفکیٹس میں غلط بیانی کی گئی۔ اس بنیاد پر نااہلی بنتی ہے۔ جہاں تک پی ٹی آئی کے اس موقف کا تعلق ہے کہ الیکشن کمیشن پاکستان کوئی ٹرائل کورٹ نہیں ہے۔ لہٰذا وہ نااہل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ لیکن ممنوعہ فنڈنگ کیس میں سپریم کورٹ کے ریمارکس کو پیش نظر رکھا جانا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ نے اس کیس میں الیکشن کمیشن کو خود ٹرائل کورٹ قرار دیا تھا۔ جب پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا تو اعلیٰ عدالت کا کہنا تھا کہ اس کیس میں الیکشن کمیشن ٹرائل کورٹ ہے۔ پہلے وہ فیصلہ کرے پھر ہم اپنا فیصلہ دیں گے۔
چودہ دسمبر کو عمران خان کی عبوری ضمانت بھی ختم ہو رہی ہے۔ عبوری ضمانت میں توسیع کے لیے انہیں دوبارہ بینکنگ کورٹس سے رجوع کرنا پڑے گا۔ اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں ایف آئی اے کارپوریٹ بینکنگ سرکل نے غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کے الزام میں سابق وزیر اعظم عمران خان، سردار اظہر طارق، سیف اللہ نیازی، سید یونس علی رضا، عامر محمود کیانی، طارق شیخ، حامد زمان، طارق شفیع، مقبول شیخ اور ایک پرائیویٹ بینک منیجر کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ ایف آئی آر کے مطابق پی ٹی آئی کا ’’نیا پاکستان‘‘ کے نام سے ایک نجی بینک اکائونٹ تھا۔ جبکہ بینک منیجر نے اکائونٹ چلانے کی غیر قانونی اجازت دی۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق اس اکائونٹ میں ابراج گروپ کی جانب سے اکیس ملین ڈالر سے زائد کی رقم جمع کرائی گئی تھی۔ جبکہ اس حوالے سے پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن کمیشن میں عارف نقوی کا جمع کرایا گیا بیان حلفی جھوٹا اور جعلی ہے۔ تئیس اکتوبر کو اس کیس کی آخری سماعت کے موقع پر عمران خان کے وکیل نے طبی بنیادوں پر ان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کی تھی۔ جسے تسلیم کرتے ہوئے بینکنگ کورٹ نے عمران خان کی عبوری ضمانت میں چودہ دسمبر تک توسیع کر دی تھی۔ اگر اگلی سماعت پر عبوری ضمانت میں مزید توسیع نہیں کی گئی تو اس صورت میں عمران خان کی گرفتاری عمل میں آسکتی ہے۔