چیئرمین تحریک انصاف پرویز الٰہی کو ناراض کرنے کا رسک نہیں لینا چاہتے،فائل فوٹو
 چیئرمین تحریک انصاف پرویز الٰہی کو ناراض کرنے کا رسک نہیں لینا چاہتے،فائل فوٹو

تحریک انصاف تا حال گومگو کا شکار

نواز طاہر:
پنجاب کی سیاست کے محور لاہور میں ق لیگ کی جانب سے اسمبلی تحلیل نہ کرنے کے عندیہ دیے جانے کے بعد پی ٹی آئی اب تک گومگو کی کیفیت میں ہے۔ اسی دوران پی ٹی آئی نے لاہور میں ’’ملک بچائو، الیکشن کرائو‘‘ کے نام پر انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کرنے کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اندر اختلافات برقرار ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اسمبلی توڑے جانے کے اعلان کی باقاعدہ واپسی کا بھی اعلان نہیں کیا گیا اور یہ باورکروایا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی اسمبلیوں کی تحلیل کے فیصلے پر قائم ہے اور مناسب وقت پر اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں گی۔ مگر تمام جماعتوں میں ’احباب‘ کی رائے کے مطابق مذاکراتی عمل بھی جاری ہے۔ جس کی کامیابی کی جانب بڑھنے کی رفتار سست ہے۔ اسی دوران پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم نے ’پلان بی‘ پر بھی عملدرآمد جاری رکھا ہوا ہے۔ اسی پلان کے تحت سابق وزیر اعظم نواز شریف کی وطن واپسی کا اعلان کر دیا گیا ہے اور ساتھ ہی ان کے استقبال کی تیاریاں بھی شروع ہیں۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ’ن‘ نے اپنے قائد میاں نواز شریف کی وطن واپسی کا اعلان کیا ہے۔ لیکن کوئی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔ موجودہ فیصلہ ایک سیاسی پیغام اور حکمتِ عملی ہے۔ وطن واپسی کا اعلان نواز شریف خود لندن میں کریں گے۔ جو ممکنہ طور پر جنوری کے بعد ہی ہوگا۔
گزشتہ روز (جمعہ کو) مسلم لیگ ’ن‘ پنجاب کے صوبائی صدر اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی زیر صدارت اجلاس میں پارٹی رہنمائوں کو سیاسی صورتحال پر بریفنگ دی گئی اور پہلے سے جاری ہدایات کے مطابق کارکنوں اور عوام سے رابطے تیز کرنے پر زور دیا گیا اور بتایا گیا کہ اب کی بار الیکشن مہم کی قیادت براہ راست میاں نواز شریف ہی کریں گے۔ اور جب وہ عوام میں موجود ہوں گے تو انتخابی مہم پہلے سے زیادہ نتیجہ خیز ہوگی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں بتایا گیا کہ مسلم لیگ ن کے کارکن تو اپنی جگہ پارٹی قیادت کے ساتھ ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ لیکن اہم پیش رفت یہ ہے کہ غیر جانبدار رہنے والے اور نون لیگ کی عوامی فلاحی پالیسیوں کی حمایت کرنے والے وہ کارکن اور عام ووٹرز بھی واپس پارٹی کی جانب دیکھ رہے ہیں، جو ملک میں تبدیلی کے نام پر عمران خان کی جعلی شخصیت کا شکار ہوگئے تھے اور اب عمران خان کا چہرہ بے نقاب ہونے پر بد دل ہوچکے ہیں۔ ان حالات میں سیاسی رابطوں میں تیزی لانے کی ضرورت ہے اور جب میاں نواز شریف وطن واپس آئیں گے تو ان کا بھر پور استقبال کیا جائے گا جس کی بھر پور تیاریوں کی بہر حال ضرورت ہے۔

لیگی ذرائع کے مطابق استقبال کیلیے جو کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔ وہ کسی تاخیر اور وقفے کے بغیر اپنا کام جاری رکھیں گی اور جیسے ہی نواز شریف کی وطن واپسی کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا، وہ روزانہ کی بنیاد پر انتظامی اجلاس کریں گی اور استقبال کیلئے بڑے قافلوں کے ساتھ روانہ ہوںگی۔ ان ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی تاریخ اور مقام کا فیصلہ اور اعلان میاں نواز شریف خود ہی سازگار ماحول کے مطابق کریں گے۔ دوسری جانب اجلاس کے بعد ن لیگ کے صوبائی صدر اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے اعلان کیا کہ میاں نواز شریف کی وطن واپسی کیلئے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے عمران خان کو اسمبلی توڑنے کر الیکشن میں آنے کا چیلنج بھی دیا۔ جس پر پی ٹی آئی کی طرف سے مرکزی سطح کے بجائے سندھ کے صدر عمران اسماعیل کی طرف سے جواب دیا گیا ہے کہ ہم نواز شریف کو بلا تاخیر وطن واپس آنے کیلئے کہتے ہیں اور الیکشن کے حوالے سے چیلنج کرتے ہیں کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق عمران خان کے لاہور میں ڈیرا ڈالنے سے یہاں پر سیاسی سرگرمیاں سڑکوں پر بھی ہونا ضروری تھیں اور کارکنوں کا مورال اپ رکھنے کیلئے جلسے جلوس ناگزیر ہیں۔ اس لئے اسمبلیوں کی تحلیل تک ’الیکشن کرائو‘ مہم شروع کی گئی ہے۔ کیونکہ اسمبلیوں کی تحلیل کے راستے میں اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کا رویہ پی ٹی آئی کی سوچ کے برعکس ہے۔

ذرائع کے مطابق عمران خان نے پنجاب کی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ میاں نواز شریف کو وطن واپسی پر گرفتارکرکے جیل بھیجنے کے فول پروف انتظامات کیے جائیں اور کھل کر اس کا اعلان بھی کیا جائے۔ اس دوران نون لیگ پنجاب میں سیاسی سرگرمیاں شروع کرتی ہے تو پولیس کو متحرک کیا جائے اور اعظم سواتی کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کا بھرپور جواب دیا جائے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے لاہور میں ملاقات کرنے والے اراکین اسمبلی کو یہ بھی بتایا کہ نواز شریف کی وطن واپسی کا اعلان بھی اب تک ہمارے اسمبلیوں کی تحلیل جیسا ہے۔ لیکن نوازشریف کی وطن واپسی سے پہلے ہم ٹھوس اقدامات کریں گے۔ پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق سے گزشتہ تین سال سے تحفظات کا اظہار کرنے والی ایک خاتون رکن اسمبلی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ نواز شریف کی وطن واپسی کا اعلان ممکنہ طور پر پنجاب کے وزیراعلیٰ کوایک پیغام کے طور پر کیا گیا۔ جو اسمبلی توڑنے کی راہ میں حائل ہیں اور چاہتے ہیں کہ صوبائی حکومت برقرارکھی جائے۔ تاکہ نون لیگ کا بہتر طور پر مقابلہ کیا جاسکے۔ جو اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں ممکن نہیں۔

ان ذرائع کے مطابق عمران خان اگلے ہفتے تک مشاورتی عمل مکمل کرنے کے بعد اسمبلی کی تحلیل کا حتمی اعلان کرسکتے ہیں۔ جو وفاقی حکومت کیلئے ایک نیا چیلنج ہوسکتا ہے۔ زمان پارک کے ذرائع کے مطابق عمراں خان تاحال ق لیگ پرانحصار کیے ہوئے ہیں اور گومگو کا بھی شکار ہیں۔ جبکہ پرویز الٰہی اس وقت پی ٹی آئی کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور عمران خان انہیں فی الحال ناراض کرنے کا رسک نہیں لے رہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ دبائو ڈالنے کی صورت میں پی ٹی آئی تو حکومت سے الگ ہوجائے گی۔ لیکن پی ڈی ایم پرویز الٰہی کی وزارتِ اعلیٰ برقرارکھ سکتی ہے۔ جبکہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ سابق صدر آصف علی زرداری پہلے ہی پرویز الٰہی کو اسی تسلی کے ساتھ آن بورڈ رکھے ہوئے ہیں۔