ندیم محمود:
مولانا فضل الرحمن اور حافظ حسین احمد کے مابین کوئٹہ میں ہونے والی ملاقات کو بلوچستان میں جے یو آئی کی سیاست کے حوالے سے اہم پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔ اس ملاقات کے موقع پر مولانا فضل الرحمن نے اپنے دیرینہ ناراض ساتھی حافظ حسین احمد کو گلے لگایا۔ تاہم ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ کیا دونوں سینئر سیاسی رہنما ماضی کا اپنا سفر وہیں سے دوبارہ شروع کرنے پر تیار ہوگئے ہیں، جہاں سے دو برس پہلے یہ ٹوٹا تھا۔ واضح رہے کہ اس ملاقات کو لے کر روایتی اور سوشل میڈیا پر یہ خبریں چلتی رہیں کہ ’’حافظ حسین احمد دوبارہ جے یو آئی کا حصہ بن گئے۔‘‘ تاہم ’’امت‘‘ نے رابطہ کرکے جب جے یو آئی کے سینئر رہنما سے استفسار کیا کہ مولانا سے آپ کا پیچ اپ ہوگیا ہے؟ تو حافظ حسین احمد کا کہنا تھا ’’پیچ اپ تو نہیں ہوا، بس ایسے ہی ملاقات ہوئی ہے۔‘‘
اس کے برعکس بعض ٹی وی چینلز نے یہ خبر تک چلا دی کہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے بعد حافظ حسین احمد نے جے یو آئی میں باقاعدہ دوبارہ شمولیت کا اعلان کردیا ہے۔ حالانکہ تاحال حافظ حسین احمد کی جانب سے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ البتہ اس ملاقات کو واپسی کے عمل کا آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس معاملے سے آگاہ ذرائع کا بھی یہی کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور حافظ حسین احمد کے مابین ملاقات سے تعلقات میں سرد مہری کی برف پگھلی ہے۔ اس کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں حافظ حسین احمد، جے یو آئی میں اپنا پرانا رول دوبارہ سنبھال سکتے ہیں۔
انتہائی مصدقہ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ حافظ حسین احمد اور مولانا فضل الرحمن کے مابین کشیدگی ختم کرانے کی کوششیں پچھلے پانچ چھ ماہ سے ہو رہی تھیں۔ تاہم گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران ان کوششوں میں تیزی آگئی تھی۔ برف پگھلانے میں بنیادی رول جے یو آئی بلوچستان کا رہا۔ صوبے میں پارٹی کے امیر اور جنرل سیکریٹری سے لے کر ضلعی عہدیداران تک نے اس حوالے سے کاوشیں کیں۔ حافظ حسین احمد سے ملاقات کرنے والے جے یو آئی کے وفود اپنی میٹنگز کی تفصیلات سے مولانا فضل الرحمن کو آگاہ کرتے رہے۔ آخر کار مولانا نے وفد کے ذریعے پیغام بھیجا کہ جب وہ کوئٹہ کا دورہ کریں گے تو حافظ حسین احمد سے ملاقات بھی ہوگی۔ تین چار روز قبل مولانا فضل الرحمن کوئٹہ پہنچے۔ جمعہ کی صبح مولانا کی ہدایت پر جے یو آئی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالواسع کی قیادت میں ایک وفد جامعہ مطلع العلوم پہنچا اور حافظ حسین احمد کو بتایا کہ مولانا کل (ہفتے کو) آپ سے ملاقات کریں گے۔ بعد ازاں نصف شب کے قریب بلوچستان کے مختلف اضلاع کے جے یو آئی عہدیداران حافظ حسین احمد کی رہائش گاہ پہنچے اور اگلے روز مولانا سے ملاقات کنفرم کی۔
ہفتے کی دوپہر ساڑھے بارہ بجے کے قریب مولانا فضل الرحمن اور حافظ حسین احمد کے مابین تقریباً دو برس بعد ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر دیگر پارٹی رہنما بھی موجود تھے۔ ملاقات کے آغاز پر مولانا فضل الرحمن نے اپنے دیرینہ ساتھی حافظ حسین احمد کو گلے لگایا۔
حافظ حسین احمد نے تصدیق کی ہے کہ پچھلے چند ماہ سے پارٹی کی صوبائی قیادت کے رہنما ان سے رابطے میں تھے۔ ’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر جے یوآئی کے سینئر رہنما اور سابق ترجمان حافظ حسین احمد کا کہنا تھا ’’پچھلے چند ماہ سے جے یو آئی کے صوبائی اور ضلعی سطح کے کئی دوست مجھ سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ بعد ازاں جے یو آئی بلوچستان کے امیر، جنرل سیکریٹری کے علاوہ کوئٹہ، قلات، چاغی، پشین، چمن اور دیگر اضلاع کے شوریٰ ارکان نے اکٹھے ہوکر مولانا فضل الرحمن سے بات کی۔ اس کے نتیجے میں معاملات آگے بڑھے۔ ان سب کے سامنے میں نے اپنا وہی پرانا موقف رکھا کہ نہ میں نے پارٹی سے استعفیٰ دیا تھا اور نہ پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ البتہ پارٹی کے اندر اصول کی بات پہلے بھی کرتا تھا اور اب بھی کروں گا۔ اگر یہ بات آپ مجھے پارٹی کے اندر نہیں کرنے دیں گے اور پارٹی سے باہر میرے خلاف بیانات دیں گے تو مجھے بھی مجبوراً ایسا ہی کرنا پڑے گا۔‘‘
حافظ حسین احمد نے یہ بھی بتایا کہ ’’ملاقات کرنے والے جے یو آئی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالواسع اور دیگر دوستوں نے پیغام پہنچایا تھا کہ مولانا کہہ رہے ہیں کہ تمام گلے شکوے ختم کرکے آپ ہمارے ساتھ آجائیں۔ بعد ازاں مولانا فضل الرحمن نے بھی ملاقات کے موقع پر یہی کہا کہ آپ سینئر رہنما ہیں اور جے یو آئی آپ کی اپنی پارٹی ہے۔ جس پر میرا کہنا تھا کہ میں تو ساتھ ہوں، پارٹی سے آپ نے خود ہی نکالا تھا اور خود ہی واپس لے رہے ہیں۔ یہ آپ کا اپنا فیصلہ ہے۔ میں نہ خود پارٹی سے نکلا تھا۔ اور نہ ہی میں نے استعفیٰ دیا۔‘‘
اس سوال پر کہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے دوران کیا گلے شکوے ہوئے؟ حافظ حسین احمد کا کہنا تھا کہ ’’اس طرح کے کسی تنازع پر بات نہیں ہوئی۔ دیگر معاملات پر گفتگو ہوتی رہی۔ نہ مولانا نے ماضی کی بات کی اور نہ میں نے اس قصے کو چھیڑا۔ ابھی گلے شکوے ہونا باقی ہیں۔‘‘
دسمبر 2020ء میں جے یو آئی نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کا الزام لگاکر حافظ حسین احمد کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت حافظ حسین احمد جے یو آئی کے مرکزی ترجمان تھے۔ بعد ازاں دونوں طرف سے ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ جاری رہا۔ حافظ حسین احمد نے تب مختلف ٹی وی انٹرویوز اور میڈیا بیانات میں کہا تھا کہ وہ پارٹی سے موروثی سیاست کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اور ان کی خواہش ہے کہ جے یو آئی میں شفاف انٹرا پارٹی الیکشن کرائے جائیں۔ جبکہ پارٹی سے نکالے جانے کے اعلان کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی کے آزادی مارچ کے دوران انہوں نے کھل کر اپنے اس موقف کا اظہار کیا تھا کہ نواز شریف خود کو بیل آؤٹ کرانے کے لئے جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں کو ٹول کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ بعد ازاں انہوں نے نواز شریف کی جانب سے عسکری قیادت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر بھی اعتراض کیا۔ جس پر پارٹی سربراہ مولانا فضل الرحمن پارٹی ترجمان حافظ حسین احمد سے ناراض ہوگئے تھے۔ یہ معاملہ اتنا بگڑا کہ جے یو آئی نے حافظ حسین احمد سمیت چند دیگر رہنماؤں کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کردیا۔ واضح رہے کہ حافظ حسین احمد 1973ء میں جے یو آئی کے رکن بنے تھے۔ تب مولانا فضل الرحمن پارٹی میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ اور ان کے والد مفتی محمود پارٹی لیڈ کر رہے تھے۔