صاحب مضمون
کسے معلوم تھا کہ اقبال کے شہر سیالکوٹ سے کمال مہارت کے شاہکار فٹبال دوحہ قطر میں گھروں میں کام کرنے والی مراکشی "ماسیوں” کے بچوں کی پر جوش ککوں سے اتنے اچھلیں گے اور ہدف پر پہنچیں گے کہ ازکار رفتہ سمجھے جانے والے عرب چکا چوند روشنیوں کے مرکز توجہ بن جائیں گے اور ان کی محض عالمی فٹبال کپ کی میزبانی کے انتظام و انصرام ہی نہیں، اس کے نہایت پروقار اور پیغام خدا کے ابلاغ کے انوکھے آغاز اور وحدت انسانی کے خوبصورت راستے کی دعوت پر انہیں تنہا کرنے والی شیطانی روحیں چنگھاڑتی چیختی بھاگنے پر مجبور ہو جائیں گی۔
کون جانتا تھا کہ ہسپانیہ کی سر زمین پر طارق بن زیاد اور یوسف بن تاشفین کے نقش قدم اب کرۃ القدم ، فٹبال کی صورت خوابیدہ شیر کو ہوشیار کرنے کا باعث بنیں گی۔
کون کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان سے بے گھر کئے جانے اور وطن کی زمین تنگ کئے جانے پر ڈاکٹر ذاکر نائیک اس سے قبل فراعنہ مصر کیے عتاب سے بچ نکل کر علامہ یوسف القرضاوی کی طرح قطر میں احیائے دین کی تسلسل سے کوششوں اور جدوجہد کے اہم ترین کرداروں میں شامل ہوں گے۔ایک نیا آہنگ جوش پکڑے گا اور اخوت و بیداری کی تحریک کی صورت اختیار کر جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ دعائیں قبول کرنے پر آئے تو پتھروں سے چشمے پھوٹ پڑیں۔ اور صحراؤں سے تیل نکل آئے۔ انتشار وحدت کی صورت اختیار کرنے لگے اور ہجرت سکون اور سکینت کی طرف لے جائے۔
لوگوں نے دین کو کھیل بنا لیا تھا۔ لیکن نشاۃ ثانیہ کے جذبہ سے سرشار نوجوان اب کرکٹ اور فٹ بال کے ایونٹس میں بھی رب العالمین کے سامنے سر بسجود ہوکر سر بلند ہو رہے ہیں۔ مراکشی و الجزائری و قطری مرد و زن میچ خود جیتتے ہیں لیکن پرچم بے گھر فلسطینیوں کا بلند کر رہے ہیں۔
تو کیا ورلڈ کپ میں استعمال ہونے والے فٹ بال کے شہر سیالکوٹ کے اقبال کے بقول۔۔
وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا؟