ابراہیم جلیس کا نام ذہن میں آتے ہی اپریل 1967 میں جنگ کے نیوز روم کا پورا منظر نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کل ہی کی بات ہو۔
ڈے شفٹ میں سید ظفر رضوی، خورشید الاسلام زبیری، رشید بٹ، عارف اسحاق، فیض اللہ بیگ اور ہم کام کر رہے ہوتے کہ اچانک ابراہیم جلیس بلند آواز میں باتیں کرتے ہوئے ایک طوفان کی طرح نمودار ہوتے اور پھر لطیفوں کی بھرماراور دلچسپ باتوں سے نہ صرف ہم سب کی توجہ حاصل کر لیتے بلکہ وہاں موجود ہر شخص کو بے ساختہ قہقہے لگانے پر بھی مجبور کر دیتے۔ ان کی آواز سنتے ہی استاد یوسف صدیقی، شفیع عقیل، انعام درّانی، خالد فاروقی، مرزا کارٹونسٹ، علی محمد شاہین اور مشیر واسطی بھی اپنے اپنے کام چھوڑ کر نیوز روم میں جمع ہو جاتے۔ گپ شپ کی یہ مجلس کوئی آدھ پون گھنٹہ چلتی اور ایک طرح سے ”ہائیڈ پارک“ کا سا منظر پیش کرتی جہاں ہر ایک کو اپنی مرضی کی بات کسی خوف وخطر کے بغیر کہنے کی مکمل آزادی ہوتی۔ اس مجلس کے دولہا اور میر مجلس ابراہیم جلیس کی باغ وبہار اور ہنس مکھ شخصیت ہو تی۔ پھر استاد کی ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ یہ محفل سرزنش پر ختم ہو جاتی اور سب اپنے اپنے کاموں میں دوبارہ مگن ہو جات۔ یہ محفل ہمارا روز کا معمول بن گئی تھی اور اس کا باقاعدہ انتظار کیا جاتا کہ کب ابراہیم جلیس آتے ہیں اور کب محفل جمتی ہے۔ جس دن کسی وجہ سے وہ نہ آتے تو وہ دن بڑا پھیکا پھیکا سا محسوس ہوتا۔ اس محفل سے جہاں ماحول نہایت خوش گوار ہو جاتا، وہیں اس دوران میں ہونے والی بات چیت سے کئی نئے خیال اور آئیڈیاز بھی سامنے آتے، جس پر کبھی جلیس صاحب کالم لکھتے اور مرزا کارٹونسٹ کارٹون بناتے یا کبھی اداریے کا بھی موضوع بن جاتے۔ جنگ میں ان کے کالم ”وغیرہ وغیرہ“ کے ہم پہلے ہی سے مستقل قاری تھے اور اُن سے ملنے یا دُور ہی سے سہی، دیکھنے کی خواہش بھی تھی لیکن یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ ہم نہ صرف ان کو قریب سے دیکھیں گے بلکہ اس طرح ایک دفتر میں ان سے ملاقات بھی کریں گے اور ایک ساتھ، ایک ہی اخبار میں، ایک کولیگ کی طرح کام بھی کریں گے۔ مگر اللہ نے یہ موقع فراہم کیا۔ ہم نے ان کے ساتھ کم وبیش کوئی تین سال کام کیا ہوگا۔ ان تین برسوں کے دوران میں ہم نے جس ابراہیم جلیس کو دیکھا اور پرکھا، وہ ایسی محبوب شخصیت تھی جو ہر چھوٹے بڑے، ماتحت اور افسر، امیر اور غریب کے دوست اور غم گسار تھے۔ دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹیں دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ ہر محفل میں نگینے کی طرح چمکتے اور چہکتے تھے۔ ہر محفل میں جچتے اور اس کی جان ہوتے تھے۔ جیسی محفل اور جس طرح کا ماحول ہوتا وہ اُسی میں ڈھل جاتے تھے۔ بچوں کی محفل میں بچوں، صحافیوں کی مجلس میں صحافت اور ادیبوں اور شاعروں کے درمیان ادب اور شعر وشاعری کی باتیں کرتے۔ جس محفل میں جاتے سب کی توجہ کا مرکز بلکہ اس محفل کی جان بن جاتے۔
جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، جنگ اخبار میں شامل ہوتے وقت ہمیں ان بڑے بڑے صحافیوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے خوف سا محسوس ہو رہا تھا بلکہ ہم اپنی کم علمی کی وجہ سے ایک قسم کے احساس کم تری میں بھی مبتلا تھے اور خود کو ایک نوآموز اور جونیئر کے طور پر دیکھتے تھے۔ ہمارا یہ خوف اور ڈر جس شخص نے پہلے ہی دن دُور کیا اور ہمیں بھی جنگ کی اس کہکشاں کا حصہ سمجھا، وہ یہی ابراہیم جلیس تھے۔ ایسا محسوس ہوا جیسے ہم ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہیں۔ وہ ہر ایک سے بڑی بے تکلفی کے ساتھ اس طرح بات چیت کرتے کہ کسی کو یہ احساس ہی نہ ہونے دیتے کہ وہ بہت بڑے اور سینئر اخبار نویس، صاحب طرز ادیب، افسانہ نگار اور کالم نویس ہیں۔یہی حال دوسرے صحافیوں کا تھا جو وہاں کام کرتے تھے۔ ان کے اس طرز عمل نے ہمارے اندر سینئر جونیئر کا وہ تصور آہستہ آہستہ ختم کر دیا جو کے پی ٹی کی ملازمت کے دوران میں پیدا ہوگیا تھا اور جس کا سامنا ہم حال ہی میں کر کے جنگ میں آئے تھے۔ اب ہم بھی خود کو صحافیوں کے اسی قافلے کا، ان ہی کی طرح کا ایک حصہ سمجھنے لگے تھے جو پاکستان کے صف اوّل کے صحافی ہو نے کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے شاعر، ادیب اور مصنف بھی تھے۔ اور جن کی شہرت پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی تھی۔ ہمیں ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہمیشہ فخر کا احساس رہا۔
عارف الحق عارف
ہمیں ابراہیم جلیس کی اس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا کہ وہ کسی بھی بات کو جلدی سمجھ جاتے پھر اسے نہایت عمدہ اور موثر انداز میں پیش بھی کرتے۔ ان کی تیز لکھنے کی صلاحیت بھی حیران کن تھی۔ اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے کا موقع ہمیں کئی بار اُس وقت ملتا تھا جب اُنہیں دفتر آکر کالم لکھنا ہوتا۔ ابھی وہ ہم سے گپ شپ کر رہے ہوتے اور اچانک کسی مسئلے پر لکھنے کا خیال آتا یا اس محفل سے کوئی نیا آئیڈیا ملتا تو خاموشی سے اپنی سیٹ پر جا کر دس پندرہ منٹ میں کالم لکھ کر کاتب کے حوالے کر دیتے۔ کہتے ہیں کہ ان کی تیزتر لکھنے کی عادت بچپن سے تھی۔ ان کے قریبی دوست بتاتے تھے کہ انہوں نے اپنا مشہور ناول ”چالیس کروڑ بھکاری“ آٹھ دن میں لکھ لیا تھا۔ اتنے کم وقت میں اتنا اچھا ناول لکھنے کی توقع آج کل کے کسی بڑے سے بڑے لکھاری اور افسانہ نویس سے کم ہی کی جا سکتی ہے۔
ابراہیم جلیس نے اردو کے نثری ادب کی قریباً ساری اصناف، افسانہ، انشائیہ، فکاہیہ، سنجیدہ کالم نگاری اور رپورتاژ، اس تیزی سے لکھا جیسے بہت جلدی میں ہوں اور اپنے حصے کا کام جلد ازجلد مکمل کرنا چاہتے ہوں۔ ان کا جذباتی اور کھرا پن، حق گوئی، غلط باتوں کو برداشت نہ کرنے کی عادت اور سب سے بڑھ کر ان کی خودداری اور کسی پابندی اور جبر کے بغیر آزادانہ لکھنے لکھانے کا اصول انہیں جگہ جگہ لئے پھرتا رہا جس کی ایک اجمالی جھلک ان کے تصویری خاکے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اِس کا اندازہ اُن کے حیدرآباد میں قیام کے دوران میں ان کی سرگرمیوں اور سقوط کے بعد وہاں سے پاکستان آنے تک کے مراحل سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اُن کے تصویری خاکے میں اُن نو جرائد واخبارات، ماہ نامہ نگار، روزنامہ پیام مشرق، روزنامہ آزاد، روزنامہ امروز، روزنامہ انجام، روزنامہ جنگ، ہفت روزہ عوامی عدالت، روزنامہ حریت اور روزنامہ مساوات کے نام درج ہیں جہاں انہوں نے کام کیا یا جہاں ان کے افسانے اور تحریریں شائع ہوتی رہیں۔ اس میں صرف ماہ نامہ ”ساقی“ ایسا ادبی جریدہ ہے جس کا نام درج ہونے سے رہ گیا۔
ابراہیم جلیس کا تعلق حیدرآباد دکن کے ایک تعلیم یافتہ اور متمول خاندان سے تھا جہاں تعلیم کا حصول ہمیشہ بنیادی ترجیح تھی۔ اس لئے ابتدائی تعلیم مکمل ہوتے ہی انہیں مزید تعلیم کے لئے علی گڑھ بھیج دیا گیا جہاں ان کے بڑے بھائی محبوب حُسین جگر پہلے سے موجود تھے۔ لیکن ابراہیم جلیس نے ان سے پہلے ہی بی اے کر کے اپنی ذہانت کی دھاک بٹھا دی۔ یہ بھی ان کا ہر کام تیز رفتاری سے کرنے کے رجحان کا ایک ثبوت ہے۔ ان کے والد محمد احمد، گلبرگہ جیسے مردم خیز علاقے کے تحصیل دار تھے، جو اُس زمانے میں ایک بڑا عہدہ تھا۔ اس لئے پورے علاقے میں ان کو نہایت قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ خانوادہ بھی سیّد رئیس امروہوی کے خاندان کی طرح کا ایک بے مثل علمی گھرانا ہے جس نے اردو زبان کو محبوب حُسین جگر جیسے روزنامہ سیاست کے ایڈیٹر، ابراہیم جلیس جیسے افسانہ نگار، کالم نگار اور ایڈیٹر اور سیّد مجتبیٰ حُسین جیسے ہندوستان کے نام ور مزاح نگار اور نقاد دیئے۔ ان تین بھائیوں میں سے صرف ابراہیم جلیس ہی پاکستان آسکے جب کہ دو بھائیوں نے حیدرآباد ہی کو اپنا مسکن بنائے رکھا
ابراہیم جلیس کے والد اس ذہین و فطین لخت جگر کو کسی بڑے سرکاری عہدے پر دیکھنے کے خواہش مند تھے اور چاہتے تھے کہ وہ آئی سی ایس کے مقابلے کامتحان دیں، جو اعلیٰ سرکاری مناصب پر پہنچنے کی پہلی سیڑھی تھا۔ لیکن ابراہیم جلیس کا اس طرف ذرّہ برابر رجحان نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے لئے ادبی محاذ کا انتخاب کر لیا تھا جس کے ذریعے وہ معاشرے میں ظلم وجور کا شکار اور پسے ہوئے استحصال زدہ طبقے کے لئے آواز بلند کرنے اور اس کے لئے اپنا قلم استعمال کرنے کا پختہ ارادہ کر چکے تھے۔ یہی زمانہ ہے جب بیس سال کی عمر میں ان کے افسانوں کے پہلے مجموعے ”تکونا دیش“ میں سے ایک افسانہ نیاز فتح پوری کے ماہ نامہ ”نگار“ میں شائع ہوا تو اس کی شہرت پورے حیدرآباد میں پھیل گئی۔ اس لئے کہ اس جیسے معتبر ماہنامے میں کسی کے افسانے، مضمون یا شاعری کا شائع ہونا بجائے خود ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔ جب اس کا علم ان کے والد کو ہوا تو انہوں نے انہیں افسر بنانے اور دیکھنے کی خواہش اپنے دل ہی میں دبا لی اور بیٹے سے اس کا اظہار تک نہ کیا۔ اس طرح دوسرے والدین کو یہ تعلیم بھی دے دی کہ بچوں کی خواہش اور رجحانات معلوم ہونے پر والدین اپنی خوشیاں کیسے قربان کرتے ہیں۔ ”نگار“ میں ان کا افسانہ چھپا تو وہ ایک مستند افسانہ نگار کا درجہ حاصل کر چکے تھے، اب دوسرے ادبی جرائد میں ان کے رشحات قلم شائع ہونے میں کو ئی امر مانع نہیں تھا۔ چناںچہ وہ شاہد احمد دہلوی کے ماہ نامہ ”ساقی“ میں بھی چَھپنے لگے۔ کچھ عرصے بعد وہاں شائع ہونے والے افسانوں کا مجموعہ ”زرد چہرے“ شائع ہوا تو ان کا نام حیدرآباد کی حدود سے نکل کر پورے ہندوستان کے ادبی حلقوں میں ایک نوجوان افسانہ نگار کے طور پر پھیل چکا تھا۔ اُس زمانے میں ترقی پسند تحریک عروج پر تھی، اس لئے وہ بھی زمانہ¿ طالب علمی میں اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ترقی پسندوں نے بھی باغیانہ خیالات رکھنے والے اس ابھرتے ہوئے نوجوان افسانہ نگار اور ادیب کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ وہ حیدرآباد، دکن اور گرد ونواح کے نچلے اور غربت کی چکی میں پسنے والے لوگوں کے حالات پر دُکھی تھے اور چاہتے تھے کہ ا ن کے حالات بدلیں۔ ”زرد چہرے“ میں شامل افسانوں میں انہوں نے معاشرے کے ایسے ہی پسے ہوئے مظلوم طبقے کی حالت زار بیان کی ہے۔ وہ دُکھی انسانوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنا چاہتے تھے۔وہ نہایت حساس دل رکھتے تھے، جس کا اظہار انہوں نے اپنے ہر افسانے، کالم اور تحریر میں کیا
ابراہیم جلیس کی کُل اٹھارہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اِن میں افسانوں کا مشہور مجموعہ ”تکونا دیش“ اور ”زرد چہرے“ ، ناول ”ور بازار“ چند ترش وشیریں مضامین کا مجموعہ ”نواب فراڈ یار جنگ“ ، ”اوپر شیروانی اندر پریشانی“ ، ”ہنسے اور پھنسے“ ، ”نیکی کر تھانے جا“ ، ”شگفتہ شگفتہ“ اور قحط بنگال پر ایک کتاب ”بھوکا ہے بنگال“ ، ”واہیات باتیں“ چین کے دَورے کے بعد ایک سفر نامہ ”نئی دیوار چین“ ، قید کے دنوں کی روداد ”جیل کے دن جیل کی راتیں“ اسٹیج ڈراموں کا مجموعہ ”اجالے سے پہلے“ ، ”ترنگے کی چھاؤ ں میں“ ، ”ایک پیسے کی خاطر“ سقوط حیدرآباد، دکن کے احوال پر ان کا تاریخی رپورتاژ ”دو ملک ایک کہانی“ شامل ہں۔ ان کی اور ان کے خاندان کی اردو ادب کی خدمات پر ہندوستان میں ”اردو ادب کے تین بھائی“ کے نام سے ایک کتاب بھی شائع ہوئی ہے، جس میں ان کے ساتھ بڑے بھائی محبوب حُسین جگر (ایڈیٹر روزنامہ سیاست) اور چھوٹے بھائی ممتاز طنز و مزاح نگار اور نقاد مجتبیٰ حُسین کی ادبی خدمات کا تفصیلی ذکر ہے۔ مجتبیٰ حسین کو ان کی ادبی خدمات پر بھارت کی حکومت نے سب سے بڑا اعزاز ”پدم شری ایوارڈ“ بھی دیاہے۔
اپنی کتاب ”دو ملک ایک کہانی“ میں ابراہیم جلیس نے سقوط حیدرآباد، دکن کے اسباب اور انتشار پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ وہ اس آبائی ریاست سے کتنا پیار کرتے تھے اور ان میں کس قدر سیاسی شعور اور سوجھ بوجھ تھی۔ وہ مسلمانوں کی اس بڑی ریاست کے حالات پر بڑے دُکھی تھے۔ اس زمانے میں وہ ریڈیو حیدرآباد، دکن میں ملازم تھے اور سیاسی جماعت ”اتحادالمسلمین“ کے موقف کے بڑے حامی۔ اس کی حمایت میں ریڈیو سے تقریریں بھی کرتے تھے۔ لیکن جب ہندوستان کی فوج نے کئی دن کی ناکہ بندی کے بعد قائداعظم کی وفات کے دوسرے ہی دن فوج کشی کر دی تو اُن کا حساس دل ٹوٹ گیا اور وہ خاندان کو وہیں چھوڑکر لدھیانے کے راستے لاہور چلے آئے۔ ان کے والد اور خاندان کے افراد کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں غائب ہو گئے۔ اچانک ایک دن پتاچلا کہ وہ تو پاکستان جا کر لاہور میں ایک اخبار سے وابستہ بھی ہوگئے ہیں۔ وہ نامساعد حالات کا مقابلہ خود کر رہے تھے۔ ان کے اہل خانہ حیدرآباد ہی میں رہ گئے تھے جو بہت بعد ساٹھ کی دہائی میں پاکستان پہنچے۔
ابراہیم جلیس کو حیدر آباد، دکن سے بڑی محبت تھی اور اس کے سقوط سے انہیں بڑا صدمہ پہنچا تھا۔ ان کا خاندان اور ان کے دوست احباب کا بڑا حلقہ بھی وہیں تھا جنہیں وہ یاد کرتے رہتے تھے۔ تاہم، وہاں جانے کی اپنے آپ میں ہمت نہیں پا رہے تھے۔ پھر جب بارہ سال بعد، 1960 میں، وہ خاندان سے ملنے گئے تو ان کا شان دار استقبال ہوا۔ انہوں نے اپنا ادبی سفر ایک بار پھر وہیں سے شروع کیا تھا اور نئے ادیب و افسانہ نگار کی حیثیت سے شہرت حاصل کی تھی۔ وہ بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ حیدرآباد جانے اور وہاں ایک ماہ قیام کے دوران میں ان کا جو اکرام ہوا اور جس طرح ان کے احباب اور رشتے داروں نے ان کے اعزاز میں دعوتیں اور استقبالیہ جلسے کئے، اس کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ وہ دفتر کی قہقہہ بار محفلوں میں اکثر اس کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ خاندان اور احباب کا اصرار تھا کہ وہ وہیں رک جائیں لیکن وہ سب کی یادیں ساتھ لئے واپس پاکستان آگئے۔ انہیں اپنے چھوٹے بھائی مجتبیٰ حُسین سے بڑی محبت تھی اور وہ بھی ان پر نازاں رہتے تھے۔
ابراہیم جلیس نے فلم میں بھی قسمت آزمائی کی۔ وہ خود ہی اس کی کہانی بھی سناتے تھے کہ کس طرح ساحر لدھیانوی کے ساتھ بمبئی کی خاک چھانتے رہے، ان کی کسی فلم ساز سے بات نہیں بنی اور ناکام ہوکر اس نگری سے واپس آگئے۔ پھر نئے سرے سے اپنے ادبی سفر پر تیزی سے رواں دواں ہوگئے اور قلم ہی کو اپنی اور اپنے سات بچوں کی روزی روٹی کا وسیلہ بنا لیا۔ بچوں کے بارے میں ان کا یہ لطیفہ بڑا مشہور ہوا کہ دوستوں کی ایک محفل میں ان سے زندگی کے لطیفوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے برجستہ کہا، ”میری زندگی کے سات لطیفے ہیں جن میں چار مذکر اور تین مونث ہیں۔“ وہ ہمیں بھی یہ لطیفہ سنایا کرتے تھے۔ ان کے سب سے بڑے بیٹے شہریار جلیس بیان کرتے ہیں کہ ”میرے ابا نے ایک خوددار انسان کی حیثیت سے زندگی بسر کی۔ انہوں نے ساری اولادوں کو اعلیٰ تعلیم وتربیت دی اور ان کی ملازمت کے لئے کبھی کسی سے سفارش نہیں کی۔“
وہ آخری دنوں میں پیپلز پار ٹی کے ترجمان اخبار ”روزنامہ مساوات“ کراچی کے ایڈیٹر تھے۔ ضیاءالحق کے مارشل لا کا زمانہ تھا۔ سنسر شپ کی پابندیاں عروج پر تھیں۔ مساوات، مارشل لا حکومت کی پالیسیوں کا سخت ناقد تھا جس کی وجہ سے اسے بند کردیا گیا تھا۔ اس کے عملے کے بے روزگار ہونے کا خطرہ سر پر تھا، جس کی ذمے داری کا بوجھ وہ اپنے اوپر محسوس کر رہے تھے اور سخت ذہنی دباو¿ میں رہنے لگے تھے۔ وہ مذاکرات کے لئے آئی ایس پی آر کے دفتر گئے تھے، جہاں اخبار پر پابندی ختم کرنے کے بارے میں اس کے فوجی سربراہ سے بات چیت ہوئی لیکن بات نہ بنی۔ وہ پریشانی کے عالم میں دفتر پہنچے اور عملے سے اپنی ملاقات کا حال سنایا جو اُن کی واپسی کا منتظر تھا، اس کے بعد کیا ہوا؟ بقول ان کے جونیئر ساتھی اور ہمارے چھوٹے بھائیوں جیسے ناصر بیگ چغتائی کے باول انہوں نے کہا، “ وہ مردود کہتا ہے کہ اخبار نہیں کھلے گا۔ کیا کریں گے میرے چارسو لوگ۔ ان کا کیا ہوگا؟“ پھر وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے لڑھک گئے۔ مَیں نے لپک کر انہیں سنبھالنے کی کوشش کی اور بہت زور سے چلّایا۔ احفاظالرحمن اندر آچکے تھے۔ عنایت صاحب، نادر شاہ عادل، صوفی صاحب اور خالد علیگ ہم سب اُنہیں ہسپتال لے گئے مگر وہ روشن چراغ نہ رہا۔“ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ کہتے ہیں کہ ہسپتال جاتے وقت راستے میں سوزوکی بھی خراب ہو گئی تھی، جب انہیں ہسپتال پہنچایا گیا تو کافی دیر ہو چکی اس طرح چہروں پر مسکراہٹیں بکھرنے والا یہ عظیم ادیب،افسانہ نگار،مزاح نگار اور ایک درد مند دل رکھنے والا بڑا آدمی ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ہم سے دور بہے دور اس نگری چلا گیا۔ جہاں سے کوئی واپس نہیں آیا۔