نمائندہ امت:
عوامی مسلم لیگ پاکستان کے سربراہ شیخ رشید احمد ان دنوں مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ گزشتہ چار برس سے اپوزیشن پر برسنے والے شیخ رشید احمد کے حالیہ طرز عمل سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب کسی خول میں بند ہیں۔ لوگ سوال کررہے ہیں کہ کیا شیخ رشید جو خود کو گیٹ نمبر چار سے وابستہ قرار دیتے رہے ہیں، ان کے لیے اب گیٹ نمبر چار سمیت تمام گیٹ بند ہوگئے ہیں؟ ۔
ذرائع کے مطابق فی الحال ان کی دلچسپی راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی ایک اہم ترین شخصیت پرمزکوز ہے، جس تک رسائی کے لیے وہ ان کے عزیزوں سے رابطہ کرنے میں مصروف ہیں۔ یوں تو شیخ رشید 1985ء کے غیر جماعتی الیکشن میں بطور ایم این اے منتخب ہوئے، لیکن مسلم لیگ ن سے وابستگی نے ان کی شہرت کو چار چاند لگائے۔ پھر مشرف دور میں بھی اہم وزارتوں پر تعینات رہے۔ اس کے بعد اپنی پارٹی عوامی مسلم لیگ بنا کر راولپنڈی کی دیرینہ نشست پر عمران کی کشتی میں سوار ہوکر چار برس تک خوب حکومت کے مزے لیے۔ قبل ازیں وہ عمران خان کے دھرنوں میں اپنی شعلہ بیانی سے عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
ان کی پراسرار خاموشی کے بارے میں ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ، شیخ رشید آج کل عمران خان سے نہایت دلبرداشتہ ہیں۔ انہوں نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں انہیں جو مشورے دیئے تھے، وہ نہیں مانے گئے۔ اب بھی وہ بظاہر تو عمران خان کے ساتھ ہیں لیکن عمران خان کے اردگرد رہنے والے تحریک انصاف کے بعض لیڈروں کے مخالفانہ رویے سے کافی دلبرداشتہ ہیں۔ ان دنوں تو وہ ویسے بھی چار پانچ روز کے لیے ملک سے باہر ہیں اور ابھی فی الحال انہیں خاموشی ہی بہتر دکھائی دے رہی ہے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب وزیر آباد میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا تو شیخ رشیدان کی عیادت کرنے زمان پارک عمران کے گھر گئے تو انہیں گھر کے باہر کافی انتظار کرایا گیا، اس سے بھی انہیں عمران خان کے نزدیک اپنی اہمیت کا اندازہ ہوگیا۔ سب سے اہم بات یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جو ان کے تعلقات تھے، وہ پہلے جیسے نہیں رہے۔ اب وہ تمام لوگ یا تو ریٹائرڈہوگئے ہیں یا ان کی اداروں میں وہ ذمہ داریاں نہیں رہیں، جن سے شیخ رشید کو سپورٹ حاصل ہوسکتی تھی۔
راولپنڈی ان کا اپنا حلقہ ہے اور یہیںسے وہ ہر بار منتخب ہوتے ہیں، لیکن انہیں دو مرتبہ شکست کا منہ بھی دیکھنا پڑا۔ مسلم لیگ نواز کے شکیل اعوان نے انہیں2010ء کے ضمنی الیکشن میں ہرایا۔ اس سے قبل جاوید ہاشمی سے 2008ء کے عام انتخابات میں بھی انہیں عبرتناک شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ 2018ء میں راولپنڈی کے اسی حلقہ سے جیت کر ایک بار پھر اسٹبلشمنٹ کے توسط سے حکومت میں آگئے تھے۔ اور یہ بات وہ خود بھی متعدد بار مان چکے ہیں اور ذاتی محافل میں کھل کر اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ان کے سرپر کس کا ہاتھ ہے۔ ان دنوں وہ بظاہر تو خاموش ہیں اور ایک آدھ بیان کے علاوہ کوئی بیان نہیں دے رہے۔ لیکن پس پردہ شیخ رشید کافی متحریک ہیں۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی ایک اہم ترین شخصیت تک پہنچنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ لیکن فی الحال انہیں اس حوالے سے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ چونکہ اس وقت اسٹبلشمنٹ کسی سیاستدان کو کسی گیٹ پر نہیں آنے دے رہی، اس لیے ان کی کسی بھی اہم شخصیت سے قطعی طور پر کسی طرح کی بھی رسائی نہیں ہو رہی۔ بعض اہم شخصیات جو اب اہم سیٹوں پر نہیں ہیں، انہوںنے شیخ رشید کو فی الحال خاموش رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ قطعی طور پر ابھی انہیں عمران خان سے کوئی امید نہیں ہے وہ اپنی ذاتی محافل میں یہ کہتے رہتے ہیں کہ عمران خان اگر ان کے مشوروں پر چلتے تو آج سڑکوں پر خوار نہ ہورہے ہوتے۔ لانگ مارچ کی کال کے موقع پر بھی شیخ رشید نے عمران خان کو کہا تھا کہ وہ جلد اس کا اعلان کرکے لانگ مارچ شروع کریں۔ لیکن عمران 25 مئی کے بعد لانگ مارچ کو مسلسل طول دیتے رہے، جس سے انہیں کافی مایوسی ہوئی۔ نومبر کے مہینے میں وہ عمران سے مکمل مایوس ہوچکے تھے۔ دراصل انہوں نے 2021ء میں ہی عمران خان کو یہ مشورہ دینا شروع کردیا تھا کہ آپ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے تو اگلی حکومت بھی آپ کو مل سکتی ہے۔ لیکن عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بعض معاملات پر رنجشیں بڑھا کر اپنے لیے مسائل پیدا کیے۔
شیخ رشید احمد اگر چہ یہ بیان زور وشور سے دے رہے ہیں کہ الیکشن کرائیں اور ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کے لیے مستحکم حکومت کا قیام عمل لایا جائے۔ لیکن یہ بیانات وہ حکومت کے لیے نہیں بلکہ کچھ مخصوص اداروں تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ شیخ رشید چند مخصوص ٹی وی چینلز پر انٹرویوز دے رہے ہیں، جب کہ صورت حال یہ ہے کہ دیگر اہم چینلزکم ہی ان سے رابطہ کر رہے ہیں۔ اس وقت ان کی کوشش یہی ہے کہ کسی طرح نئے الیکشن ہو جائیں جس کے لیے وہ پس پردہ کافی متحرک ہیں اور انہیں امید ہے کہ راولپنڈی کے عوام ایک مرتبہ پھر انہیں اس حلقے سے کامیاب کرا دیں گے۔