محمد علی:
چین کی پیپلزز لبریشن آرمی نے ایک بار پھر بھارتی فوجیوں کی پھر درگت بنا دی۔ اروناچل پردیش کے توانگ سیکٹر میں تصادم کے دوران درجنوں بھارتی فوجی زخمی ہوئے اور اپنی اپنی جانیں بچاکر بھاگے۔ زخمی ہونے والے بھارتی اہلکاروں کو گوالیارکے اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ جہاں متعدد فوجیوں کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ بھارتی میڈیا میں شور ہے کہ یہ واقعہ 9 دسمبر یعنی جمعہ کے روز پیش آیا تھا۔جس میں 300 کے قریب چینی فوجیوں نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC) کے پار آکر کارروائی کی۔ لیکن مودی سرکار اس واقعے کو چھپانے کی حتیٰ الامکان کوشش کرتی رہی۔
بھارتی جریدے ’’دی ہندو‘‘ نے بھارتی فوج کو ہونے والے بھاری نقصان کی خبر بریک کر کے سارا بھانڈا پھوڑ دیا۔ توانگ تصادم کے بعد بھارت میں اپوزیشن کی جانب سے مودی سرکار پر تنقید شروع کر دی گئی ہے۔ کانگریس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جب یہ حملہ ہوا تو نریندر مودی اپنی سیاست چمکاتے ہوئے احمد آباد کی روڈ ریلی میں شریک تھے۔ ایک بھارتی تجزیہ نگار نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر لکھا کہ ’جنگ کے سائے ہم پر منڈلا رہے ہیں، ہم اس جنگ کو ٹالنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ایک نہ ایک دن ہونی ہے‘۔ آنند مشرا نامی ایک سیاسی کارکن نے مودی نواز صحافی اور میڈیا ہاؤس کو ٹیگ کرکے ایک معنی خیز تصویر پوسٹ کی۔ جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ روس سے جنگ میں یوکرینی صدر زیلینسکی فرنٹ لائن پر ہیں۔ جبکہ چین سے ڈر کر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پردے کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔
بھارتی کالم نگار اشوک سوین نے بھی تصدیق کی کہ ایل اے سی پر چینی اور بھارتی فوج میں ایک بار پھر تصادم ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایل اے سی ایک اور ایل او سی (لائن آف کنٹرول) بنتی جا رہی ہے۔ لوک سبھا کے رکن اسدالدین اویسی نے مودی سرکار پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ انہوں نے اپنی سلسلہ وار ٹوئٹس میں لکھا ’’اروناچل پردیش سے آنے والی رپورٹس تشویشناک اور خطرناک ہیں۔ بھارتی فوجیوں کی چینی آرمی کے ساتھ بڑی جھڑپ پر مودی حکومت نے کئی دنوں سے ملک کو اندھیرے میں رکھا ہوا ہے۔ جبکہ پارلیمنٹ کا اجلاس جاری ہے تو اسے کیوں نہیں بتایا گیا؟ واقعے کی تفصیلات واضح نہیں ۔ بتایا جائے تصادم کی وجہ کیا بنی؟ کیا گولیاں چلائی گئیں یا واقعہ گلوان طرز کا تھا؟ کتنے بھارتی فوجی زخمی ہوئے ہیں؟ ان کی حالت کیسی ہے؟ چین کو مضبوط پیغام کیلئے پارلیمنٹ کا فورم کیوں استعمال نہیں کیا جا رہا؟‘‘۔
واضح رہے کہ لداخ کی وادی گلوان میں دو برس قبل چینی اور بھارتی فوجیوں میں خونریز جھڑپ ہوئی تھی۔ جس میں 20 سے زائد بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ توانگ حملہ مذکورہ خونی تصادم کے بعد پہلا بڑا واقعہ ہے۔ جس میں بڑی تعداد میں بھارتی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ جھڑپ جمعے کو ہوئی۔ جھڑپ جس مقام پر ہوئی وہاں شدید برفباری ہو رہی ہے۔
واقعہ کے بعد دونوں ممالک کی افواج پیچھے ہٹ گئیں۔ جبکہ اعلیٰ سطح کی کمانڈر میٹنگ بھی منسوخ کر دی گئی۔ انڈین وزارت خارجہ نے اس واقعے کے بعد فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ انڈین نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایل اے سی کے توانگ سیکٹر پر حد بندی کے تنازعے کی وجہ سے یہ تصادم 2006ء سے جاری ہے۔
اروناچل پردیش میں توانگ سیکٹر کے مختلف علاقوں میں دونوں اطراف حد بندی کے اپنے اپنے دعوے کے تحت گشت کی جاتی ہے۔ جمعے کو چینی فوجیوں نے ایل اے سی عبور کیا اور حملہ کر کے بھارتی فوجیوں کا حلیہ بگاڑ دیا۔ لداخ کی گلوان وادی میں جون 2020ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں افواج آمنے سامنے آ گئیں۔ گلوان وادی میں ہونے والی جھڑپ میں 20 انڈین اور چار چینی فوجی مارے گئے تھے۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کئی جھڑپیں ہوئی تھیں۔
جھڑپوں کے بعد بھارت نے لداخ میں تقریباً 50 ہزار فوجیوں کو چینی افواج کے مقابل منتقل کیا تھا۔ دونوں ملکوں میں افواج کو پیچھے ہٹانے کے معاہدے کے بعد چینی فوجیوں نے لداخ میں پینگونگ تسو جھیل کے کنارے سے تمام کیمپوں کو خالی کرنے کیلئے بنائے گئے درجنوں ڈھانچوں کو توڑ دیا تھا اورگاڑیوں سمیت منتقل ہو گئے تھے۔ واضح رہے کہ بھارت اور چین کے درمیان 3800 کلو میٹر طویل سرحد ہے۔ جہاں دونوں ممالک کی فوجیں سرحد پر کسی بھی آتشیں اسلحے کے استعمال سے بچنے کیلئے پہلے طویل عرصے سے قائم پروٹوکول کی پابندی کرتی تھیں۔