اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین رسالت کے مبینہ ملزم کو ضمانت پر رہا کردیا ۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے توہین رسالت کے ملزم کی درخواست ضمانت کی سماعت کی۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ ٹرائل کورٹ نے فرد جرم میں تو دفعہ لگائی ہی نہیں، جب ملزم کو پتہ ہی نہیں کہ انہوں نے کیا جرم کیا تو وہ اپنا مقدمہ کیسے لڑے گا۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایف آئی اے نے شکایت پر معاملے کی انکوائری کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ کو پتہ ہونا چاہیے کس جرم میں کیا دفعہ لگتی ہے، ایف آئی اے نے اس کیس میں اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے بھی لی، کونسل نے بھی کہا کہ 295 سی نہیں لگتا، اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے، جب ایک آئینی ادارے کی رائے پر عمل نہیں کرنا تو اسے بند کردیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جب چالان جمع ہو جائے تو کیس دیکھنا عدالت کا کام ہوتا ہے۔
ملزم کے وکیل نے بتایا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے 8 جون 2022 کو آئی تھی، جس پر جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کے باوجود ضمانت مسترد کردی؟۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ مذہب کے بارے میں ہر کیس کا تعلق ریاست سے ہوتا ہے، مذہب سے متعلق معاملات افراد کے ہاتھوں میں نہیں دیے جاسکتے بلکہ ریاستی مشینری کو انتہائی صلاحیت اور احتیاط سے دیکھنے چاہئیں، ان معاملات میں ریاستی مشینری کو افراد کے سامنے سریندر نہیں ہونا چاہیئے، مذہب سے متعلق ایک کیس میں ٹرائل کورٹ نے فرد جرم عائد کی لیکن دفعہ نہیں ڈالا۔
عدالت عظمیٰ نے ایف آئی اے کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ مزید تفتیش کا کیس ہے۔بعدازاں سپریم کورٹ نے ملزم کی ایک لاکھ روپے کے مچلکوں پر ضمانت منظور کرلی ۔