عمران خان:
پوسٹ آفس کے علاقائی حکام نے اضافی رقم بٹورنے کیلئے اپنے ہی ادارے کو نقصان پہنچانا شروع کردیا۔ پوسٹ آفس کے پاس موجود اربوں روپے کے سرکاری وسائل استعمال کر کے ادارے کو منافع بخش بنانے کے بجائے نجی کمپنیوں کو پارسل ارسال کرنے کیلئے نام نہاد معاہدوں کی بنیاد پر استعمال کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔ پس پردہ موجود پوسٹ آفس کے افسران اور نجی کمپنیوں کو بزنس دلانے والے عہدیداروں اب تک بھاری کمیشن بٹور چکے ہیں۔ تاہم اس کے نتیجے میں اب تک ادارے کو کروڑوں روپے کے نقصان سے دو چار کردیا گیا ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق پاکستان پوسٹ آفس کو نجی کوریئر کمپنی سے رقم چوری کا ذریعہ بنادیا گیا ہے۔ کورنگی جی پی او میں نجی کمپنی کے نامکمل پتے کے پارسل لفافے سامنے آنے پر معاملہ کھلا۔ 29 ہزار لفافوں کو نجی کمپنی کی انتظامیہ نے جی پی او کے گریڈ 17 کے افسر سے لینے سے انکار کرتے ہوئے جی پی او میں تعینات گریڈ 8 کے کلرک کو پہچانے کی ہدایت کی۔ نجی کورئیر کمپنی میں مختلف شعبوں کے ڈائریکٹرز اور سینٹرل جی پی او میں تعینات افسر اور کلرک کی مدد سے تین کروڑ سے زائد کا غبن ہوچکا ہے۔ ذرائع کے بقول قومی خزانے کو پارسل وصول کرکے پہنچانے کی مد میں کروڑوں روپے کا چونا لگانے کا نیا معاملہ سامنے آیا ہے۔ جس کے لئے ٹریکس کمپنی کے ڈائریکٹرز اور پاکستان پوسٹ آفس کے جنرل پوسٹ آفس کراچی کے سینٹرل ڈویژن میں تعینات افسر اور کلرک ملوث ہیں۔ اس چوری کے لئے ٹریکس کمپنی اور جی پی او سینٹرل کے درمیان ایک ایم او یو کو بنیاد بنایا جارہا ہے۔ تاہم یہ ایم او یو سامنے نہیں لایا جارہا ہے۔ پوسٹ آفس کے ذرائع کے بقول نجی کورئیر کمپنی ٹریکس نے مختلف بینکوں اور کمپنیوں سے پارسل لفافہ اور دیگر سامان کی ایک شہر سے دوسرے شہر ترسیل کا معاہدہ کر رکھا ہے اور اس میں آنے والے ایسے پارسل لفافوں کی ترسیل میں چوری کیے جارہے ہیں جن کی اہمیت وصول کرنے والے کی نظر میں کم ہو۔ تاہم یہ معاملہ اس وقت منظر عام پر آیا۔ جب جی پی او کورنگی نے 29 ہزار ایسے لفافے جس پر پتہ نامکمل درج تھا، انہیں کمپنی کو واپس بھیجے اور ان 29 ہزار لفافوں کے عوض پوسٹ آفس کی فیس طلب کی۔
واضح رہے کہ محکمہ ڈاک کے قوانین میں واضح ہے کہ نامکمل پتے والے پارسل لفافہ اگر واپس آئے گا تو بھیجنے والے سے دونوں طرف کی فیس وصول کی جائے گی۔ لیکن ٹریکس کمپنی کی انتظامیہ نے یہ لفافے وصول کرنے سے انکار کیا اور جی پی او حکام کو کہا گیا کہ یہ ڈاک سینٹرل جی پی او میں تعینات کلرک اسٹاف طلحہ کو دے دی جائے۔ ہمارا کنٹریکٹ اسی کے ساتھ ہے۔ اس معاملے پر جی پی او کورنگی نے اعلیٰ حکام کو تحریری خط ارسال کر دیا۔ جس میں اس کنٹریکٹ سے متعلق پوچھا گیا اور کلرک اسٹاف اور کورئیر کمپنی سے متعلق تحریری کاپی طلب کی گئی۔ لیکن جی او سینٹرل انتظامیہ جواب دینے سے تاحال گریزاں ہیں۔ جبکہ اس معاملے پر ڈویژنل سپرٹنڈنٹ کا کہنا ہے کہ نجی کمپنی سے 12 لاکھ کی وصولی کا معاملہ ہے۔ وہ ادائیگی ہوجائے گی تو قصہ ختم ہو جائے گا۔ نجی کورئیر کمپنی کے نامکمل پتے کے لفافے کمپنی کو واپس جانے کے بجائے ردی میں فروخت کر کے علیحدہ رقم بٹوری جاتی رہی۔
اس سے قبل بھی پوسٹ آفس میں ہونے والی کروڑوں روپے کی کرپشن میں ملوث اعلیٰ حکام کو بچانے اور وزیر مواصلات کے سامنے اپنی کارکردگی ظاہر کرنے کے لئے ایف آئی اے میں11 کروڑ روپے کے کیسز میں 43 کروڑ روپے کرپشن کی چارج شیٹ جمع کروائی گئی۔ اس ضمن میں ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل کراچی میں درج ہونے والے 5 کیسوں میں ایف آئی اے کی ٹیم 7 کروڑ روپے کی کرپشن کے ثبوت حاصل کرسکی۔ جو بینکنگ ٹرانزیکشنز کے ذریعے منتقل کئے گئے۔ جبکہ باقی ماندہ 4 کروڑ روپے کی کرپشن کے ثبوت محکمہ ڈاک کے متعلقہ حکام کی نااہلی کی وجہ سے سامنے ہی نہیں آسکے۔ کیونکہ جب ایف آئی اے کے افسران نے کیسوں میں تفتیش شروع کی تو محکمہ ڈاک کے متعلقہ حکام ان وائوچرز کا مصدقہ ریکارڈ بھی پیش نہیں کرسکے۔ جن کے ذریعے کیش رقم نکالی گئی۔ اسی وجہ سے 3 برس کے دوران ہونے والی 11 کروڑ کی کرپشن کا ذمہ دار یکساں طور پر تمام 19 افسران کو ظاہر کیا گیا۔ یعنی اگر 19 افسران 60 لاکھ روپے فی کس کے حساب سے ریکوری دے دیں تو یہ رقم 11 کروڑ کے لگ بھگ بن جاتی ہے۔ تاہم ان میں ایسے افسران بھی شامل تھے جن پر دبائو ڈلواکر ایک کروڑ سے زائد کی ریکوری لے لی گئی اور دیگر کو بچا لیا گیا اور پھر انہیں کی ریکوری کو بنیاد بنا کر مقدمات درج کروالئے گئے۔
ذرائع کے بقول حیرت انگیز طور پر انتہائی سادہ کیس کو آگے چل کر محکمہ ڈاک کے حکام نے پیچیدہ بنانا شروع کر دیا اور انہیں کیسز میں پیش کی جانے والی چارج شیٹوں میں کرپشن کی رقم کو بغیر کسی ثبوت کے 43 کروڑ روپے تک لے گئے۔ اس میں ایسی نااہلی دکھائی گئی کہ ایک ہی دورانیے کی کرپشن کو پانچوں کیسوں میں علیحدہ علیحدہ ظاہر کر کے ماتحت افسران کے سر منڈھ دیا گیا۔ جس وقت کیس بنائے گئے تھے۔ اس وقت تحقیقات کا دائرہ کراچی کے تمام 6 جنرل پوسٹ آفسوں تک پھیلا نے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اعلیٰ افسران نے خود کو بچانے کیلئے انہیں کیسز میں معاملہ ختم کرنے کی حکمت عملی بنائی۔