امت رپورٹ:
عمران خان نے تقریباً ایک ہفتے بعد پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا ہے۔ جس کے ساتھ ہی چوہدری پرویز الٰہی کا امتحان شروع ہو گیا ہے۔ اگر چیئرمین پی ٹی آئی اپنے اعلان پر واقعی عملدرآمد کر دیتے ہیں تو پنجاب کے آئندہ انتخابات میں اپنی خواہش کے مطابق سیٹیں حاصل کرنے سے متعلق ان کا خواب بکھر جائے گا۔ اسی طرح وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے اپنے آبائی ڈویژن اور اضلاع کے لیے مختص کردہ اربوں روپے کا فنڈ بھی غیر موثر ہو جائے گا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکمران پارٹی نون لیگ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی خبر دانستہ میڈیا کو لیک کی۔ مقصد عمران خان کو جال میں پھنسا کر صوبائی اسمبلیوں کی فوری تحلیل کی طرف لانا تھا۔
صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے سے قبل عمران خان اور چوہدری پرویز الٰہی کے مابین ہونے والی ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ وزیراعلیٰ پنجاب نے پی ٹی آئی اور اپنی پارٹی کے متعدد رہنمائوں کے سامنے وضاحت کے ساتھ عمران خان سے اپنے اس وعدے کی تجدید کی کہ وہ اسمبلیاں توڑنے کا حکم بجا لانے میں تاخیر نہیں کریں گے۔ تاہم چوہدری پرویز الٰہی کی باڈی لینگویج ان کے الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ صاف محسوس ہورہا تھا کہ دل پر جبر کر کے وہ یہ یقین دہانی کرا رہے ہیں۔
ان ذرائع کے بقول اسمبلی توڑنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دینے کا فیصلہ اتفاق رائے سے کیا گیا۔ اگرچہ تحریک انصاف کے چند سخت گیر رہنما، دونوں اسمبلیاں پیر کے روز ہی تحلیل کرنے کے حق میں تھے۔ تاہم معتدل مزاج رہنمائوں کی اکثریت نے اس تجویز کو رد کر دیا، جو اب بھی درمیان کا کوئی راستہ نکلنے کی امید رکھتے ہیں۔ حالانکہ قبل ازوقت انتخابات کے حوالے سے صدر مملکت عارف علوی کی ثالثی میں پی ٹی آئی اور اتحادی حکومت کے مابین ہونے والے مذاکرات تاحال ناکامی سے دوچار ہیں
۔ ذرائع نے بتایا کہ بعدازاں مشاورت سے تیئس دسمبر بروز جمعہ اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ ہوا۔ کیونکہ عمران خان اور پارٹی کے دیگر رہنمائوں کے ساتھ چوہدری پرویز الٰہی نے اعتدال پسند رہنمائوں کے اس خیال سے اتفاق کیا کہ اس عرصے کے دوران درمیان کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے۔
چوہدری پرویز الٰہی کو قریب سے جاننے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی ٹوٹنے سے چونکہ وزیراعلیٰ کا مستقبل سے متعلق پلان ناکام ہو جائے گا۔ اس لیے ان کی کوشش ہو گی کہ ایک ہفتے اندر کے اسمبلیاں توڑنے کے اعلان پر عملدرآمد میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے۔ ان ذرائع کے بقول چوہدری پرویز الٰہی اپنے موجودہ منصب کو آئندہ الیکشن میں مطلوبہ سیٹیں حاصل کرنے کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کررہے ہیں۔ اس مجوزہ پلان کے تحت پہلے انہوں نے اپنے آبائی ضلع گجرات کو ڈویژن کا درجہ دیا اور بعدازاں گجرات اور منڈی بہائوالدین کے لیے ایک سو ارب روپے کا ترقیاتی فنڈ منظور کرایا۔ یاد رہے کہ گجرات، چوہدری پرویز الٰہی اور منڈی بہائوالدین، ان کے پرنسپل سیکریٹری محمد خان بھٹی کے آبائی شہر ہیں۔ اس فنڈ میں سے بیس ارب روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔ گجرات ڈویژن چار چھوٹے اضلاع گجرات، منڈی بہائوالدین، وزیرآباد اور حافظ آباد پر مشتمل ہے۔
پرویز الٰہی کی خواہش ہے کہ ان چاروں اضلاع کی بیشتر نشستیں اگلے الیکشن میں ان کی جھولی میں آگریں۔ ان کے خیال میں ایک سو ارب کا فنڈ اس خواہش کی تکمیل میں موثر ثابت ہو گا۔ لیکن اب عمران خان نے ایک ہفتے بعد خیبرپختونخوا سمیت پنجاب اسمبلی توڑنے کا اعلان کر کے ان خواہشات پر بظاہر پانی پھیر دیا ہے۔ لہٰذا ذرائع کے بقول چوہدری پرویز الٰہی کی پوری کوشش ہو گی کہ کسی طرح اس اعلان پر عملدرآمد نہ ہو سکے۔ دیکھنا ہے کہ وہ اس کے لیے کیا گیدڑ سنگھی لاتے ہیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اقتدار کے لیے سیاسی چالوں کے ماہر کو اس سلسلے میں خاصے دشوار چیلنجز درپیش ہیں۔ اگر وہ پنجاب اسمبلی توڑنے کے اعلان پر عملدرآمد روکنے میں ناکام رہے تو یہ ان کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکا ہو گا۔ کیونکہ اب ان کے پاس اتحادیوں سے رجوع کرنے کا آپشن باقی نہیں رہا ہے۔ لندن میں شریف خاندان سے قریب ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف نے پرویز الٰہی کے حوالے سے ریڈ لائن کھینچ دی ہے۔
یہ اصطلاح نون لیگی حلقوں میں عموماً اس وقت استعمال کی جاتی ہے جب پارٹی کے تاحیات قائد کی جانب سے کسی کے لیے پارٹی کے دروازے حتمی طور پر بند کر دیے جائیں۔ نواز شریف یہ ریڈ لائن قبل ازیں چوہدری نثار اور شیخ رشید سمیت دیگر رہنمائوں کے لیے بھی کھینچ چکے ہیں۔ ان ذرائع نے تصدیق کی کہ قبل ازیں جب عثمان بزدار کو ہٹا کر وزارت اعلیٰ کے لیے پرویز الٰہی کو نون لیگ اور اس کی اتحادی پارٹیوں کا امیدوار بنانے کا فیصلہ ہوا تھا تو تب بھی نواز شریف اس کے حق میں نہیں تھے۔ تاہم چھوٹے بھائی وزیراعظم شہباز شریف اور اتحادی پارٹیوں کے رہنمائوں بالخصوص آصف زرداری کے اصرار پر انہوں نے بادل نخواستہ آمادگی ظاہر کی تھی۔ ایسے میں چوہدری پرویز الہٰی کے پاس یہی دو محدود آپشن رہ گئے ہیں کہ وہ کسی طرح تیئس دسمبر کو پنجاب اسمبلی روکنے کا کوئی سبب پیدا کر لیں یا پھر چپ چاپ عمران خان کے حکم کے تحت اسمبلی تحلیل کر کے اپنے سیاسی مستقبل کے تابوت میں خود کیل ٹھونک لیں۔
تجزیہ کاروں کے بقول حمزہ شہباز سے وزارت اعلیٰ کے معاملے پر ہونے والے ٹاکرے کے موقع پر نون لیگ اور اتحادی جماعتوں کی تحریک عدم اعتماد میں روڑے اٹکانے کے لیے انہوں نے ہر طرح کا حربہ استعمال کیا تھا۔ پیر کو اگر نون لیگ اور اس کی اتحادی پارٹیوں کی جانب سے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے تو چوہدری پرویز الٰہی کا اس معاملے سے نمٹنے کا طریقہ کار ان کی نیت کا پتہ دیدے گا۔
ادھر معلوم ہوا ہے کہ پیر کو وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریوں سے متعلق خبر نون لیگ نے ذرائع کے نام پر خود میڈیا کو لیک کی۔ یہ جال بچھانے کا مقصد عمران خان کو جلد اسمبلیاں توڑنے کی طرف لانا تھا۔ واضح رہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل سے متعلق عمران خان کے اعلان سے قبل میڈیا میں ذرائع کے حوالے سے یہ خبر چلی تھی کہ نون لیگ نے پنجاب اسمبلی کی ممکنہ تحلیل روکے کے لیے منصوبہ بندی کر لی ہے۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ پرویز الٰہی اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر سبطین خان کے خلاف پیر کو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق نون لیگ اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے رہنمائوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل میں رکاوٹ ڈالنے کے بجائے الیکشن کرانے کو ترجیح دی جائے۔ جبکہ نگراں حکومت کے دور میں پی ٹی آئی سے پرانا حساب چکتا کر دیا جائے۔
دوسری جانب سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے دونوں اسمبلیوں کو فوری توڑنے کا اعلان نہ کر کے ایک بار پھر اپنے ووٹرز و سپورٹرز کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے۔ اور وہ ایک بار پھر اپنے حامیوں کو اسی طرح بے وقوف بنا رہے ہیں، جیسا کہ لانگ مارچ کے موقع پر کیا تھا۔