مراد سعید اور گنڈاپور کو زمان پارک آپریشن ناکام بنانے پر نوازا گیا،فائل فوٹو
 مراد سعید اور گنڈاپور کو زمان پارک آپریشن ناکام بنانے پر نوازا گیا،فائل فوٹو

’’مجبوری کی قبر پرانقلابیوں کا ماتم‘‘

امت رپورٹ:
اس عبرت سرائے دہر میں چشم فلک کیا کیا تماشے دکھاتی ہے۔ معمولی سی تنقید پر مخالفین کو الفاظ کے خنجروں سے ادھیڑنے والے سوشل میڈیا کے کاغذی انقلابی اور ان کا لیڈر اس وقت پرویز الٰہی کے چیلنج پر چوکڑی بھولے ہوئے ہیں۔ محض دس سیٹوں کے ساتھ تخت لاہور پر حکمرانی کرنے والے نے ایک سو ستّر سے زائد نشستوں کے مالک عمران خان کو احسان فراموش قرار دیتے ہوئے کھلا چیلنج دیا ہے کہ ’’اب وہ جنرل باجوہ کی برائی کر کے دکھائے‘‘۔ لیکن خود ساختہ چی گویرا ثانی چپ ہے کہ پاؤں میں مجبوری کی زنجیریں ہیں۔ ذرا سی بے احتیاطی پنجاب حکومت دشمن لیگ کی جھولی میں ڈال سکتی ہے۔

گھر کے ایک بھیدی کے بقول بے کسی کی قبر پر ماتم کچھ یوں ہو رہا ہے کہ سوشل میڈیا کے کاغذی جنگجوؤں کو خاموشی کے ساتھ نادر شاہی حکم جاری کر دیا گیا ہے کہ ’’ باپ اور بیٹے کے خلاف فی الحال کسی قسم کی ٹرولنگ نہ کی جائے‘‘۔ چنانچہ اڑتالیس گھنٹے گزر چکے۔ چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف اب تک نہ کوئی ہیش ٹیگ بنا نہ روایتی اخلاق باختہ ٹرولنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ پارٹی کا آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر سکون ندی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ارسلان ہو کہ مشوانی، منہ سے انگارے اگلتا گل ہو کہ مراد، پھکڑ طنز کے تیر چلانے والا فواد ہو کہ بیلٹ پیپرز پر پاؤں کے انگوٹھوں کے نشان ثبت کرنے والا سوری، سب کے ٹوئٹر اکاؤنٹس پر سکوت طاری ہے۔ البتہ بعض نے مونس الٰہی کا ایک ٹویٹ ضرور ری ٹویٹ کیا۔ جس میں اس نے عمران خان کے ساتھ اپنی ملاقات کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا۔ ’’ہمارا اتحاد قائم و دائم ہے، اور رہے گا۔ نون لیگ اپنا ماتم جاری رکھے‘‘۔ اب پتہ نہیں وہ بین السطور میں ماتم کا کسے کہہ رہے ہیں۔ یا پھر انہوں نے اپنے والد محترم کی ’’گوہر فشانی‘‘ ملاحظہ نہیں فرمائی۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے۔ جیسے کسی کی ماں بہن ایک کر کے کہا جائے۔ ’’میں آپ کے پورے خاندان کی عزت کرتا ہوں‘‘۔ لیکن یہ سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی دیوتا اور اس کے پجاری خاموش ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی، جن کی شکل و صورت کے بارے میں نجی محفلوں میں عمران خان ایسے توہین آمیز کلمات ادا کرتے رہے، جنہیں ضابط تحر یر میں نہیں لایا جاسکتا اور ان کا بیٹا مونس الٰہی، جنہیں عمران خان اپنے ساتھ بٹھانا توہین تصویر کرتے تھے، آج محبوبیت کی اس مسند پر بٹھا دیے گئے ہیں کہ جہاں دلبر کی گالی بھی بے مزہ نہیں کرتی۔ وجہ؟ مطلب نکالنا ہے۔

اس دانائی سے ہر ایرا غیرا شناسا نہیں ہوتا کہ انقلابی کوششوں کے دوران کبھی گھٹنے فرش پر ٹیکنے پڑتے ہیں۔ چنانچہ دیوتا مہر بہ لب ہے اور اس دانائی پر پجاری عش عش کر رہے ہیں۔ پارٹی کے ایک بھیدی کہتے ہیں کہ سکوت پر مبنی یہ دانائی محض پنجاب اسمبلی کا ایشو حل ہونے تک ہے۔ اگر وزیر اعلیٰ پنجاب، صوبائی اسمبلی کی تحلیل میں رکاوٹ بنے یا پھر اتحادی کسی صورت پانسہ پلٹنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں پرویز الٰہی، پی ٹی آئی کی ضرورت نہیں رہیں گے۔ اس کے فوری بعد خان کی جبری مسکراہٹ غائب اور سویا انقلابی دوبارہ بیدار ہو جائے گا۔ تب پرویز الٰہی کے خلاف ہر سطح پر محاذ کھولا جائے گا۔

سوشل میڈیا ٹیم کو بھی گرین سگنل ملے گا اور ٹرولنگ کے ایسے جھکڑ چلیں گے کہ الاماں۔ گھر کے بھیدی کے بقول اس مجوزہ پلان پر تبادلہ خیال ہو چکا ہے۔ لہذا پرویز الٰہی کی بچت اسی میں ہے کہ عمران خان کی خواہش کے مطابق اعلان کردہ تئیس تاریخ کو اسمبلی ٹوٹ جائے۔ یا پھر خان حسب عادت یو ٹرن لیتے ہوئے خود ہی اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ جائے۔ بھیدی کے مطابق پارٹی کے بیشتر عقاب (سخت گیر رہنما) صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے اعلان سے پہلے ہی خان کے سامنے پرویز الٰہی کی نیت پر شک ظاہر کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں، جنہیں پارٹی چیئرمین سے پرویز الٰہی کی مطلب کے تحت وقتی قربت بھی کھل رہی تھی۔ یہ رہنما خان کے کان میں یہ بھی پھونکتے رہے کہ جس وزیر اعلیٰ کے ہوتے ہوئے آپ صوبے میں اپنی مرضی کی ایف آئی آر نہ درج کرا سکے۔ وہ بڑے امتحان پر کیسے پورا اتر سکتا ہے۔ خان نے جب متبادل آپشن مانگا تو کسی کے پاس جواب نہیں تھا۔
تحریک انصاف کے ایک سابق عہدیدار کے بقول دونوں پارٹیوں کے مابین سڑاند بھری منافقت کا یہ ایسا بندھن ہے۔ جس میں دونوں ایک دوسرے پر اعتماد کرنے پر تیار نہیں۔ لیکن مفادات انہیں الگ نہیں ہونے دے رہے۔ عمران خان کی کوشش ہے کہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے وفاقی حکومت کو فوری عام انتخابات پر مجبور کر دے۔ اس کے لئے وہ فی الحال پرویز الٰہی کا ہر نخرہ اٹھانے اور ہر طرح کی سخت بات برداشت کرنے پر آمادہ ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو خوف ہے کہ پرویز الٰہی ناراض ہوگئے تو اپنے دس ارکان کی حمایت واپس لے سکتے ہیں۔ اس صورت میں پنجاب حکومت دوبارہ نون لیگ کے پاس چلی جائے گی۔ اس لیے انہوں نے پرویز الٰہی کو آئندہ الیکشن میں دو درجن سے زائد نشتیں اور دوبارہ وزارت عظمیٰ دینے کا مطالبہ بھی بظاہر تسلیم کرلیا ہے۔ تاہم یہ یقین دہانی زبانی کرائی گئی ہے۔

پی ٹی آئی کے بند کمرہ اجلاسوں کی سن گن رکھنے والے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ یقین دہانی محض لالی پاپ ہے۔ یہ ڈسکس ہو چکا ہے کہ فی الحال کام نکالنے کے لئے مطالبہ تسلیم کرنے میں حرج نہیں۔ آئندہ انتخابات تک صورتحال تبدیل ہوچکی ہوگی تو تب حالات کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ ذرائع کے بقول دراصل عمران خان کے لئے یہ مطالبہ قابل عمل نہیں۔ پارٹی کے اندر سے بھی اس کی سخت مخالفت کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فی الحال پرویز الٰہی کو گول مول زبانی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پرویز الٰہی کو خود بھی ادراک ہے کہ ان کا مطالبہ قابل عمل نہیں۔ وہ اسمبلی توڑنے سے بچنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے جان بوجھ کر ایسی شرائط رکھی تھیں۔ جنہیں تسلیم کرنا عمران خان کے لیے ممکن نہ ہو۔ لیکن بظاہر یہ حربہ کارگر ثابت نہیں ہوا۔ عمران خان نے مطالبہ تسلیم کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے پرویز الٰہی کو ساتھ بٹھا کر اسمبلیاں توڑنے کی تاریخ دیدی۔
اب سب کو انتظار ہے کہ تئیس دسمبر کو کیا ہو گا؟ کیا اتحادی حکومت، پرویز الٰہی کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ یا گورنر کے ذریعے وزیر اعلیٰ پنجاب سے اعتماد کا ووٹ لینے سے متعلق نون لیگی حربہ کارگر رہے گا۔ جس کی تیاری کر لی گئی ہے۔ یہ فیصلہ پیر کے روز وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس میں سعد رفیق، ایاز صادق، سلمان رفیق، ملک احمد خان، عطاء اللہ تارڑ اور دیگر شریک تھے۔ دوسری جانب دیکھنا ہو گا کہ اسمبلی تحلیل کرا کے عمران خان اپنا مقصد حاصل کر لیتے ہیں یا وہ روایتی یو ٹرن کی طرف جاتے ہیں۔