- واٹس ائپ پر میسج کر کے کہا "اللہ کی گرفت میں آچکے ہو”۔ چیرمین تحریک انصاف بھڑک اٹھے۔
- موجودہ حالات پر خاصے پریشان ہیں – قریبی ذرائع۔
- پارٹی قیادت نئی آڈیوز کافرانزک کرانے سے گریزاں۔ زبانی طور پر جعلی قرار دیکر مٹی ڈالنا چاہتے ہیں
ندیم محمود:
پے درپے مقدمات، گرفتاری کا خوف، سر پر لٹکتی نااہلی کی تلوارکا نزدیک سے نزدیک تر ہونا، قاتلانہ حملہ، ناکام ترین لانگ مارچ، اوپر تلے شرمناک آڈیوز کا افشا ہونا۔ ان معاملات کو لے کر عمران خان بہت پریشان ہیں۔ خاص طور پر پچھلے چند ماہ سے ان پر بڑا برا وقت آیا ہوا ہے۔ ایسے کڑے وقت میں عموماً پر خلوص دوست ہی درست مشورہ دیا کرتے ہیں۔ خان کو بھی ایسے ہی ایک دیرینہ دوست نے اپنے تئیں خلوص سے بھرا مشورہ دیا۔ لیکن وہ اس دوست کے ممنون ہونے کے بجائے الٹا برس پڑے۔
چیئرمین تحریک انصاف کے قریبی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ مشکلات میں گھرے خان کو چندروز پہلے ایک قریبی دوست نے واٹس ایپ پر میسیج کیا کہ ’’تم اللہ تعالٰی کی پکڑ میں آ چکے ہو۔ ان مشکلات سے نکلنے کے لئے اللہ تعالٰی سے توبہ کرو‘‘۔
ذرائع کے بقول خان کا یہ دیرینہ دوست لگی لپٹی بغیر درست بات اور مشورہ دینے کے حوالے سے پارٹی کے حلقوں میں مشہور ہے۔ چونکہ پارٹی کے شروع کے دنوں سے عمران خان کا ساتھی ہے۔ لہذا وہ اس کے تلخ مشورے اور تجاویز بھی عموماً برداشت کرلیتے ہیں۔ تاہم اس بار معاملہ مختلف نکلا۔ ذرائع نے بتایا کہ دیرینہ دوست کی طرف سے بذریعہ واٹس ایپ دیئے جانے والے تازہ مشورے پر خلاف توقع عمران خان بھڑک اٹھے۔ میسج ملتے ہی انہوں نے مذکورہ دوست کو براہ راست کال کرکے خاصی دل کی بھڑاس نکالی۔ جب اس پر بھی تشفی نہ ہوئی تو پارٹی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر سے بھی اس کا گلہ کیا۔ جو خود بھی پارٹی کے مذکورہ دیرینہ ساتھی سے قریب ہیں۔ ذرائع کے مطابق بعد ازاں اسد عمر نے پارٹی کے سینئر ساتھی کو موجودہ حالات میں ایسے مشورے دینے سے گریز کرنے کا کہا۔
پارٹی کے ایک سینئر سابق عہدیدار کے بقول عمران خان اس وقت جس سچویشن میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس کا ان کے مزاج پر خاصا اثر پڑا ہے اور وہ کسی حد تک چڑچڑے ہو گئے ہیں۔ ساتھ ہی وہ ایک ایسی DENIAL (سچ کو تسلیم کرنے سے انکار) کی دنیا میں رہ رہے ہیں کہ جہاں ان کو اپنا ہر عمل درست دکھائی دیتا ہے۔ اگر کوئی نشاندہی کرنا بھی چاہے تو ان کا لہجہ تلخ ہوجاتا ہے۔ پارٹی اجلاسوں میں سوائے چند کو چھوڑ کر کسی کو پارٹی چیئرمین سے اختلاف رائے کی جرات نہیں۔ لیکن پھر بھی یہ اس لئے ساتھ چپکے ہوئے ہیں کہ خان کی مقبولیت کیش کراکے اگلا الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ پچھلے اڑتالیس گھنٹوں میں اوپر تلے آنے والی تین آڈیو لیکس پر پارٹی کے حلقوں میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ پارٹی کے بعض رہنماؤں نے ایک بار ان آڈیوز کو جعلی اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کردہ قرار دیا ہے۔ اس سے قبل آنے والی آڈیو لیکس کے بارے میں بھی اسی نوعیت کے تبصرے کرکے مٹی ڈالی جاتی رہی ہے۔ اس بار بھی پی ٹی آئی محض زبانی کلامی تردید سے کام چلانا چاہتی ہے۔ حالانکہ تحریک انصاف کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ وہ حالیہ شرمناک آڈیوز کا کسی انٹرنیشنل لیبارٹری سے فرانزک کرا کے انہیں جعلی ثابت کر دے۔ تاکہ یہ باب ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے۔ بصورت دیگر ان وڈیوز کو اصلی تصور کیا جائے گا۔ فرانزک اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس نوعیت کی مزید آڈیوز اور ویڈیوز آنے کی بازگشت ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کا ایسا کوئی ارادہ دکھائی نہیں دے رہا کہ وہ منظر عام پر آنے والی آڈیوز کا فرانزک تجزیہ کرائے۔ پی ٹی آئی کے اعلیٰ حلقوں تک رسائی رکھنے والے ذرائع کے مطابق عمران خان خود بھی آڈیوز کا فرانزک کرانے کے حق میں نہیں۔
آڈیوز لیکس کو لے کر نام نہاد اخلاقی اقدار کے زعم میں مبتلا بعض بقراطی تجزیہ نگاروں کا اصرار ہے کہ ’’کسی کی ذاتی زندگی میں دخل نہیں دینا چاہیے‘‘۔ حالانکہ چیئرمین پی ٹی آئی سے منسوب جو تازہ آڈیوز لیک ہوئی ہیں۔ ان کا تعلق ذاتی زندگی نہیں بلکہ ذاتی کردار سے ہے۔ ذاتی زندگی اور کردار میں نمایاں فرق ہے۔ ذاتی زندگی سے مراد شادی، طلاق اور اولاد سمیت دیگر خانگی معاملات ہیں۔ یقینا ان میں کسی کو بھی مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ ذاتی کردار بالکل ایک الگ چیز ہے۔
دنیا بھر میں رہنمائوں اور عوامی نمائندوں کے ذاتی کردار پر گرفت اور نظر رکھی جاتی ہے۔ کیونکہ وہ رول ماڈل ہوتے ہیں اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کی پیروکار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معمولی اخلاقی لغزش پر امریکی صدر کلنٹن کو مواخذہ کا سامنا کرنا پڑا۔ حال ہی میں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن بھی اس گرفت میں آئے۔ مغرب کی مثالیں دینے والے عمران خان اس سے کیسے مستثنیٰ ہو سکتے ہیں؟ جہاں تک آڈیوز کے اصلی اور نقلی ہونے کی بات ہے تو یہ ثابت کرنے کے لئے جدید لیبارٹریاں موجود ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی ہمت کریں اور آڈیوز کو اس جدید کسوٹی پر غلط ثابت کر کے سرخرو ہو جائیں۔