احمد خلیل جازم:
تحریک انصاف کے مرکزی رہنما شہباز گل پچھلے تین ہفتوں سے میڈیا پر دکھائی نہیں دے رہے۔ گزشتہ دنوں ایک اطلاع کے مطابق وہ لاہور سروسز اسپتال کے وی وی آئی پی وارڈ میں سات دسمبر سے زیر علاج تھے۔ انہیں سانس کی تکلیف تھی۔ لیکن وہ اچانک اسپتال سے غائب ہو گئے۔
ذرائع کیا کہنا ہے کہ شہباز گل گرفتاری کے خوف سے فرار ہوئے تھے۔ جب گورنر پنجاب نے صوبے سے تحریک انصاف کی حکومت کو ڈی نوٹیفائی کیا تو اسی رات شہباز شریف اسپتال سے فرار ہوئے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا جائے گا۔ حالانکہ گرفتاری کے ڈر سے ہی وہ اسپتال میں ایڈمٹ ہوئے تھے۔ ادھر سروسز اسپتال کے سینئر رجسٹرار ڈاکٹر نعمان ظفر کے مطابق شہباز گل 23 دسمبر کو بغیر کچھ بتائے اسپتال سے چلے گئے اور پھر ایک دو روز بعد واپس آگئے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر نعمان نے اسپتال کے میڈیکل سپرٹنڈنٹ کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ شہباز گل اسپتال سے بغیر کچھ بتائے غیر حاضر ہیں۔ ڈاکٹر نعمان نے مزید لکھا کہ جب وہ روٹین کے وزٹ پر وی وی آئی پی وارڈ میں گئے تو شہبا زگل وہاں موجود نہ تھے۔ ان کی فائل اور کوئی دوسرا ریکارڈ بھی اسپتال میں موجود نہ تھا۔ جبکہ شہباز گل کا کہنا تھا کہ وہ معمول کے چیک اپ اور ٹیسٹوں کیلئے آرتھو پیڈک کے پاس گئے تھے۔ اسپتال سے فرار نہیں ہوئے تھے۔
ڈاکٹر شہباز گل یوں تو پی ٹی آئی کے خاصے متحرک رہنما ہیں۔ لیکن جب سے انہوں نے اداروں کے خلاف توہین آمیز زبان کا استعمال کی اور ان کی گرفتاری ہوئی۔ اس کے بعد وہ اپنی تقاریر میں احتیاط برتنے کے بجائے دوبارہ جلسوں میں جا کر جذباتی تقاریر کرتے رہے۔ حالانکہ وہ بغاوت کیس میں ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف کے ایک اور رہنما اعظم سواتی اسی سے ملتے جلتے کیس میں گرفتار ہیں اور ان کی ضمانت بھی منظور نہیں ہو رہی۔ چار پانچ روز قبل اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں شہباز گِل کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے کیس کی سماعت ہوئی۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے فیصلے میں کہا کہ کہ شہباز گل کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جاتے ہیں۔ عدالت کا کہنا ہے کہ شہبازگل 2 لاکھ روپے ضمانتی مچلکے جمع کرائیں اور اگلی پیشی پر حاضری یقینی بنائیں۔ عدالت نے شہباز گل کیس کی سماعت 6 جنوری تک ملتوی کر دی ہے۔
شہباز گل کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ شہباز گل دمے کے مریض ہیں اوروہ سفر نہیں کر سکتے۔ لیکن عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ شہباز گل کی جانب سے جمع کرائی گئی میڈیکل رپورٹ غیر واضح ہے۔ میڈیکل رپورٹ میں نہیں بتایا گیا کہ شہباز گل کو کتنے دنوں کا آرام کا مشور ہ دیا گیا ہے۔ جس پر عدالت نے کہا کہ ضمانت ملنے کے بعد شہباز گل ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ جلسوں میں بھی جاتے رہے۔ اچانک استثنیٰ کی درخواست سے لگ رہا ہے جیسے شہباز گل ٹرائل سے بھاگ رہے ہیں۔
استثنیٰ کی درخواست دائر ہونے پر اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ ملزم اس کیس میں غیر سنجیدہ دکھائی دے رہا ہے۔ یہ عدالت کے ساتھ مذاق ہے۔ شہباز گل کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ ’’شہباز گل اسی کیس میں ضمانت کی منسوخی کے ڈر سے سروسز اسپتال میں داخل ہوئے کہ کہیں چھ جنوری کو انہیں گرفتار نہ کر لیا جائے۔ اسی لیے کورٹ میں انہوں نے میڈیکل سرٹیفیکٹ بھجوا دیا تھا۔ لیکن جب گورنر پنجاب نے صوبے سے تحریک انصاف کی حکومت کو ڈی نوٹیفائی کیا تو اسی رات شہباز شریف اسپتال سے فرار ہوگئے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا جائے گا۔ پنجاب میں چونکہ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے۔ اس لیے گرفتاری سے بچنے کیلئے پنجاب کے سروسز اسپتال میں داخل ہوگئے کہ وہاں سے عدالتوں میں پیشی کیلئے میڈیکل سرٹیفیکٹ آسانی سے مل جائے گا۔ لیکن اگلے روز پنجاب حکومت کی بحالی کے فوری بعد شہباز گل دوبارہ سروسز اسپتال میں واپس آگئے۔
سروسز اسپتال سے لیبارٹری ٹیسٹوں اورآرتھوپیڈک کیلئے جانے کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ شہباز گل ڈاکٹروں کے بتائے بغیر ٹیسٹوں کے لیے چل پڑے۔ کیا سروسز اسپتال میں یہ ٹیسٹ نہیں ہوسکتے تھے۔ اور اگر نہیں بھی ہوسکتے تھے تو کیا ڈیوٹی ڈاکٹر نے ان کی رپورٹ پر کوئی ٹیسٹ لکھ رکھے تھے۔ ان کی رپورٹ پر کسی قسم کے ٹیسٹ کیلیے ڈاکٹرز نے نہیںکہا تھا۔ وہ سانس میں دشواری کے مسئلے پر داخل ہوئے تھے اور یہ مسئلہ ہر دوسرے پاکستانی کو الرجی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
ذرائع کے بقول اصل بات یہ ہے کہ وہ گرفتاری کے خوف سے بھاگ رہے ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طرح ملک سے بھاگنا چاہتے ہیں اور اس کیلئے وہ پنجاب یا خیبرپختون صوبہ سے نکلنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ہائی کورٹ میں پچھلی مرتبہ بغاوت کے مقدمے میں گرفتاری کے بعد ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا اور وہ لیگلی کسی ایئرپورٹ سے باہر نہیں جاسکتے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ شہباز گل پر بغاوت کے مقدمے کیلئے بھی ٹھوس شواہد حاصل کرلیے گئے ہیں۔ ان ثبوتوں کی بنیاد پر نہ صرف شہباز گل کی ضمانت منسوخ ہوجائے گی۔ بلکہ اور بھی کچھ لوگوں پر بغاوت کا مقدمہ بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت شہباز گل کو مزید گرفتاری سے بچانا چاہتی ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ شہباز گل کا مزید جسمانی ریمانڈ حاصل کرکے پولیس ان حقائق تک پہنچ جائے جہاں بہت سارے ’پردہ نشینوں‘ کے نام آتے ہیں۔ ’امت‘ نے پردہ نشینوں کی نشان دہی کا سوال کیا تو ذرائع کا کہنا تھا کہ شہباز گل کی گرفتاری اور جسمانی ریمانڈ کے بعد واضح ہوجائے گا کہ پردہ نشین کون ہیں۔ ہو سکتا ہے عدالت میں ایسے آڈیو ثبوت بھی پیش کیے جائیں جس سے تحریک انصاف کے مرکزی رہنمائوں کی بغاوت کی قلعی مکمل طور پرکھل جائے۔ ملک میں جاری معاشی بحران کی وجہ سے فی الحال اس کیس پر زیادہ فوکس نہیں کیا جا رہا۔ لیکن اگلے برس کے پہلے مہینوں میں بہت کچھ تبدیل ہوجانے کا احتمال ہے۔