وزیر اعظم شہباز شریف ، نواز شریف سے ملاقات کیلیے حسن نواز کے دفتر پہنچے ۔فائل فوٹو
وزیر اعظم شہباز شریف ، نواز شریف سے ملاقات کیلیے حسن نواز کے دفتر پہنچے ۔فائل فوٹو

اسلام آباد بلدیاتی الیکشن ملتوی،حکمران اتحادکی "عزت سادات ” بچ گئی ؟

 

اسلام آباد(سجاد عباسی) وفاقی دارالحکومت میں 31دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی الیکشن کے التواء نے حکمران جماعت مسلم لیگ ن سمیت پی ڈی ایم اتحاد کی "عزت سادات” محفوظ کر لی ،یا یوں کہیے کہ ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کے درمیان بھاگ دوڑ کر کے نواز لیگ عزت سادات بچانے میں کامیاب ہو گئی۔

واقفان حال کے مطابق تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں بلدیاتی الیکشن کے لیے حکمران جماعت کی حالت اتنی پتلی تھی کہ یونین کونسل کے کل 101 حلقوں میں سے کم و بیش اٹھارہ حلقوں میں تو انہیں امیدوار ہی دستیاب نہ ہوسکے۔ اسلام آباد میں نواز لیگ کا اہم ستون سمجھے جانے والے سابق ایم این اے انجم عقیل کے حلقے گولڑہ شریف کی یوسی سے تحریک انصاف کا امیدوار بلامقابلہ منتخب ہو گیا جبکہ کئی حلقوں میں نواز لیگ کے امیدوار جماعت اسلامی اور آزاد امیدواروں کی دستبرداری یا حمایت حاصل کرنے کے لیے مارے مارے پھرتے رہے ، حالانکہ یہ امیدوار کسی ایک جماعت کے نہیں بلکہ حکمران اتحاد یعنی پی ڈی ایم کے تھے۔

ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی نے تحریک انصاف یا نواز لیگ سمیت کسی بھی جماعت سے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ کرنے کی اعلانیہ پالیسی اختیار کر رکھی تھی ، اس کے بجائے وہ آزاد امیدواروں سے اتحاد کو ترجیح دے رہے تھے۔ذرائع کے مطابق بعض حلقوں میں نواز لیگ یا پی ڈی ایم کے امیدواروں کی پوزیشن  قدرےبہتر تھی  اور وہ وننگ کینڈی ڈیٹ تھے، مگر ان حلقوں کی تعداد کتنی ہے ؟ اس حوالے سے امت نے ایک لیگی ذریعے سے استفسار کیا تو اس نے شناخت چھپانے کی شرط پر قدرے ندامت سے بتایا کہ پارٹی نے اپنے طور پر جو خفیہ سروے کرایا ہے، اس کے مطابق مسلم لیگ نون کے  کل 101 میں سے زیادہ سے زیادہ 30 اور 35 کے درمیان یوسی چیئرمین منتخب ہو سکتے ہیں۔ ذریعے کے مطابق اس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ حکمران جماعت کا میئر منتخب نہیں ہو سکتا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیاہے ۔فائل فوٹو
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ فائل فوٹو

 

ذریعے کے مطابق یہی وجہ ہے کہ نواز لیگ نے بلدیاتی الیکشن ملتوی کرانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دی کیوںکہ موجودہ حالات میں اگر وفاقی دارالحکومت سے حکمران اتحاد کے امیدواروں کی اکثریت الیکشن ہار جاتی تو اس سے جہاں ایک طرف کارکنوں اور حامیوں کا مورال ڈائون ہوتا وہیں دوسری طرف لیگی قیادت کے ان دعووں کا پول بھی کھل جاتا کہ وہ پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں الیکشن لڑنے کے لیے تیار ہیں اور بھاری اکثریت سے جیتنے کیلئے پر امید بھی۔ ذرائع کے مطابق اسلام آباد کے بلدیاتی الیکشن کے نتائج براہ راست عام انتخابات پر اثر انداز ہونے کی صورت میں حکمران اتحاد کو بڑے چیلنج کا سامنا تھا۔ اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کا فارمولا کیا ہوگا؟ اس حوالے سے فی الوقت کسی کے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں ہے البتہ اسلام آباد کے بلدیاتی الیکشن کے التواء کی صورت میں جو وقت لیا گیا ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے متعلقہ علاقوں میں ترقیاتی فنڈز کے استعمال اور رکے ہوئے منصوبوں پر کام کی رفتار تیز کرنے کا منصوبہ ہے۔ واضح رہے کہ مقامی حکومتوں کے الیکشن میں گلیوں، سڑکوں، تیوب ویلز اور بجلی کے پولز کی سیاست کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے اور حکمران جماعت کو یہ ایج حاصل ہوتا ہے کہ وہ مختلف طریقوں سے فنڈز کے استعمال کے ذریعے متعلقہ حلقوں میں اپنی پوزیشن بہتر بنا سکتی ہے۔

لیگی ذریعے کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں بڑے الیکشن میں بہتر نتائج کے لئے تو شاید لندن والے "بڑے صاحب” کی وطن واپسی کا جادو چل جائے، مگر فی الوقت تو ہمارے لئے دارالحکومت کے ” چھوٹے الیکشن ” میں عزت سادات بچانا ایک بڑا چیلنج ہے کہ ہمارے سیاسی حریف  پہلے ہی 25 کلو میٹر کی حدود میں اقتدار کا طعنہ دیتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ یہاں بھی ہمیں شکست کا سامنا ہوا تو عام الیکشن پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونا فطری امر ہو گا۔