نواز طاہر:
پنجاب میں شاندار نتائج دینے والے اساتذہ کو تحریکِ انصاف کی حکومت سے انصاف نہ مل سکا۔ بار بار وعدے اور ہر بار دھوکہ دینے پر ان اساتذہ نے زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کے سامنے دھرنا دیدیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ مطالبے کی منظوری تک وہ دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ اس سے قبل یہ اساتذہ وزیر اعلیٰ ہائوس کے سامنے احتجاج کرتے رہے۔ جہاں سخت سردی میں ان پر یخ پانی پھینکا گیا۔ جس سے کئی ٹیچرز اسپتال میں داخل ہیں۔ ان میں سے اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے ٹیچر لیاقت کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ ان اساتذہ کا بنیادی قصور یہ ہے کہ انہیں مسلم لیگ ’ن‘ کے دورِ حکومت میں طے شدہ طریقِ کار کے مطابق بھرتی کیا گیا تھا اور پی ٹی آئی کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی انہیں نشانے پر رکھ لیا۔ واضح رہے کہ پنجاب میں اس وقت ڈاکٹروں کی طرح استذہ کی بھی ہزاروں اسامیاں خالی ہیں اور پنجاب اسمبلی میں متعدد بار صوبائی حکومت تسلیم کر چکی ہے کہ پورے صوبے کے اسکولوں میں اساتذہ کی نہ صرف اسامیاں خالی ہیں۔ بلکہ بہت سے مضامین پڑھانے کیلئے اساتذہ دستیاب نہیں۔ یہ مضامین عارضی انتظامات کے تحت وقتی طور پر ایسے اساتذہ پڑھا رہے ہیں۔ جو ان مضامین کے ماہر نہیں۔ ساتھ ہی اسمبلی میں یہ بازگشت بھی رہی کہ استاتذہ کی عدم دستیابی کے باعث لاچار والدین مجبور ہوکر نجی اسکولوں کی بھاری فیسیں دینے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
ذرائع کے مطابق پنجاب کے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی کمی پر مسلم لیگ ’ن‘ کی حکومت نے پہلے سنہ دو ہزار بارہ میں اور پھر دو ہزار تیرہ چودہ میں سیکنڈری اسکول ایجوکیٹرز (ایس ایس ای) اور اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرز (اے ای او) کو طے شدہ طریقِ کار کے مطابق این ٹی ایس ٹیسٹ اور محکمانہ انٹرویوکے بعد بھرتی کیا تھا۔ جنہیں ایک خاص مدت کے بعد مستقل کیا جانا تھا۔ لیکن اساتذہ کو مستقل کیے جانے سے پہلے ہی نون لیگ کی حکومت ختم ہوگئی اور پی ٹی آئی کی بزدار حکومت قائم ہوگئی۔ جس نے نہ صرف اساتذہ کو مستقل کرنے سے انکار کر دیا۔ بلکہ پنجاب پبلک سروس کمیشن سے امتحان پاس کرنے کی شرط عائد کردی۔ اس پر چودہ ہزار اساتذہ اس شرط کو ناانصافی اور معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اپنے مطالبے کے حق میں سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا اور اب ایک پھر سڑکوں پر ہیں۔
سنہ دو ہزار بارہ میں بھرتی ہونے والوں کو مسلم لیگ ’ن‘ کی حکومت نے کنٹریکٹ ختم کرکے ریگولر کر دیا تھا۔ حکومت کی اسی پالیسی اور طریقِ کار کے تحت بھرتی اور بعد ازاں ریگولر ہونے والے اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر طاہر امانت نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’حکومتی پالیسی کے تحت ہمیں این ٹی ایس کا ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا اور پھر حکومت نے وعدے کے مطابق ہمیں ریگولر بھی کردیا۔ لیکن ہمارے بعد میں اسی طریقِ کار کے تحت بھرتی ہونے والوں کو تاحال مستقل نہیں کیا جارہا۔ بلکہ ان پر پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرنا لازم قرار دیا گیا ہے۔ جس پر ہزاروں اساتذہ اپنا حق لینے کیلئے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں‘‘۔
سیکنڈری اسکول ایجوکیٹرز ایسو سی ایشن کا کہنا ہے کہ اساتذہ کا تقرر محکمہ ایجوکیشن کی پالیسی کے مطابق پانچ سال کیلئے کنٹریکٹ کی بنیاد پر ہوا تھا اور اسی عرصے میں مستقل بھی کیا جانا تھا۔ لیکن تحریک ِانصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی نئی شرط عائد کردی کہ نئے سرے سے پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرنا ہوگا۔ جبکہ تقرر کے معاہدے یعنی لیٹ آف یگریمنٹ میں ایسی کوئی شرط نہیں تھی۔ جس پر احتجاج شروع کیا گیا۔ انیس دسمبر دو ہزار انیس کو پی ٹی آئی کے چیئرمین اور اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے گھر بنی گالہ اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا تو ریگولر کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ لیکن اس پر عمدرآمد نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد تیرہ مارچ انیس سو اکیس میں وزیراعلیٰ ہائوس کے سامنے دھرنا دیا۔ لیکن وعدہ کرکے پھر ٹرخا دیا گیا۔ اس کے بعد دو دسمبر کو لاہور پریس کلب کے سامنے دھرنا گیا۔ اس چودہ روزہ احتجاج و دھرنے کے وقت پنجاب کے سینئر وزیر میاں اسلم اقبال نے فوری طور پر ریگولر کیے جانے کی یقین دہانی کروانے کے بعد یہ دھرنا ختم کرادیا۔ لیکن آج بھی کسی وعدے اور یقین دہانی پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ حالانکہ سنہ دو ہزار انیس میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو صوبائی کابینہ نے رولز میں نرمی کرکے ریگولر کرنے کا اختیار بھی دیدیا تھا۔ لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے گھر زمان پارک کے سامنے دھرنے کے دوران سیکنڈری اسکول ایجوکیٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر محمد عمران نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’ہم چودہ ہزار اساتذہ کو سولہویں گریڈ میں بھرتی کیا گیا تھا اور تاحال ریگولر نہیں کیا گیا۔ محکمانہ پالیسی کے تحت ہمارے کنٹریکٹ میں جتنی بار توسیع ممکن تھی۔ وہ محکمے کی جانب سے دی جاچکی ہے اور اب قواعد کے تحت محکمہ مزید توسیع بھی نہیں دے سکتا اور سبھی لوگ سرکاری ملازمت کیلئے اوور ایج ہو چکے ہیں۔ کوئی دوسری نوکری بھی نہیں کرسکتے۔ ہماری ریگولرائزیشن کیلئے تین بار محکمے کی سمری چیف سیکریٹری سے ہوتی ہوئی وزیراعلیٰ کے پاس گئی ہے۔ لیکن کوئی نہ کوئی اعتراض لگا کر واپس کردی جاتی ہے۔ اس وقت بھی سمری چیف سیکریٹری کے پاس پڑی ہے۔ جس پر محکمہ خزانہ اور محکمہ قانون کی طرف سے اعتراض اٹھائے جاتے ہیں۔
ہمارا صرف یہی مطالبہ ہے کہ وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کی قیادت میں تحریکِ انصاف کی حکومت ہمیں ذلیل و خوار کرنا بند کرے اور وزیر اعلیٰ سمری منگوا کر انتظامی حکم کے تحت ریگولر کرنے کی سمری پر دستخط کردیں‘‘۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ’’ہمارا دھرنا پہلے وزیراعلیٰ ہائوس کے سامنے جاری تھا۔ دو روز کے دوران صرف ایک ڈی ایس پی نے مذاکرات کی کوشش کی۔ ہم نے جمعرات کو وزیراعلیٰ ہائوس سے زمان پارک تک پُر امن ریلی نکالی اور اب عمران خان کے گھر کے باہر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ رات آٹھ بجے تک کسی نے ہمارے ساتھ مذاکرات تک نہیں کیے۔ اگر ہمارا مطالبہ نہ مانا گیا تو ہم مطالبے کی منظوری تک یہیں دھرنا دیں گے۔ جس کا فیصلہ ساتھیوں کی مشاورت سے کیا جائے گا‘‘۔ ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’جب لاہور کا درجہ حرارت تین درجہ سینٹی گریڈ تھا۔ وزیراعلیٰ ہائوس کے سامنے اساتذہ پر یخ پانی پھینکا گیا۔ جس سے کئی ساتھی بیمار ہوگئے۔ ان میں سے کچھ اسپتال بھی منتقل کیے گئے تھے۔ ان میں اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے ٹیچر لیاقت کی حالت تشویشناک ہے۔ ہمیں ریلیف دینے کے بجائے ہمارے اوپر ظلم کیا جارہا ہے۔ لیکن ہمارے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔ ہم تب تک یہیں بیٹھیں گے۔ جب تک ریگولرائزیشن کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کر دیا جاتا‘‘۔