کشمیر کے پہاڑوں کی برف اور چشموں سے بہتے پانی کی مدھر موسیقی کے کنارے ، چند درختوں کے ساتھ ایک قطع زمین پہ ایک چھوٹا سا خیمہ، خیمے کے ساتھ لکڑی کی جلتی آگ اور لکڑی کی آگ کے مصنوعی چولہے پہ من پسند کھانا پکاتے ہوئے صبح، شام اور رات بسر کرنا، دو تین ایسے ساتھیوں کا ساتھ جن کی فریکوئونسی ملتی ہے، جن کی باتیں لطف دیتی ہیں، ساتھ کچھ ایسا کہ موسم ، ماحول قوس و قزاح کی صورت نت نئے رنگوں میں نظر آئے، ایسے ہی صبح، ایسے ہی دن،شامیں، راتیں بسر کرنا، کب تک اور کتنے روز، یہ معلوم نہیں ،لیکن یہ خواہش لڑکپن سے رہی ، جوانی میں بھی اور زندگی کی ڈھلتی شام میں بھی ، لیکن شاید اسی لئے یہ حسرت پوری نہیں ہوئی کہ شاید ایسا کر کے میں اس لطف سے محروم ہو جاتا جو اس حسین ماحول کا تصور اب تک میرے ساتھ چلا آ رہا ہے، کیونکہ یہ حقیقت مضبوط سے مضبوط طور پر آشکار ہوتی چلی آئی ہے کہ تصور حقیقت سے کہیں زیادہ، بہت زیادہ حسین ہوتا ہے۔ یا پھر ایسے ہی ماحول اور مقام میں، ایک لکڑی کے بنے چھوٹے سے ہٹ میں، جہاں گرمائش پہنچانے کے لئے ، کمرے میں لوہے کی انگیٹھی بھی لگی ہوئی ہو، جس میں لکڑی کی آ گ جلتے ہوئے حرارت بھی دے اور اسی پہ کھانا بھی پکایا جا سکے۔کئی بار شدت سے کوشش کی لیکن اسباب ، حالات نے ایسا ہونے نہ دیا۔لاتعداد مرتبہ اس ماحول کے خواب بھی دیکھے لیکن کبھی اس خواب کی تعبیر پانے کی نوبت نہیں آ سکی۔
جب انسان بھوک کی شدت سے بلک رہا ہوتا ہے تو اس وقت زندگی کی واحد خواہش پیٹ بھر کھانا رہ جاتی ہے۔ کھانا پیٹ میں پہنچ جائے تو ذہن کام کرنے لگتا ہے اور انسان نت نئے خیالات کے ہاتھوں مائل اور مغلوب ہونے لگتا ہے۔ایک بار ایک فوجی افسرنے سنایا کہ وہ ایک مشن کے دوران دونوں ٹانگوںمیں گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہوگئے، ہسپتال میں دو سال تک ان کی ٹانگیں پٹیوں میں جکڑی ، سٹینڈ کے سہارے بستر سے اوپر لٹکی رہیں، کچھ معلوم نہ تھا کہ ٹانگیں بچ سکیں گی یا نہیں، دوبارہ چلنا نصیب ہو گا یا نہیں، اس وقت وہ ہر وقت یہی دعا مانگتے تھے کہ کسی طرح وہ آہستہ آہستہ ہی سہی، لیکن اپنی ٹانگوں پہ چلنے کے قابل ہو جائے، بس اس کے سوا زندگی سے اور کچھ نہیں چاہیئے،پھر وہ اپنی ٹانگوں پہ چلنے کے قابل ہو گئے، نہ صر ف چلنے بلکہ روزانہ تیز تیز واک بھی معمول بن گیا، اس وقت ان کی زندگی کی ترجیحات بدل گئیں، زندگی کا حاصل بدل گیا،زندگی کے اہداف بدل گئے۔
انسان کیسی مخلوق ہے، جس کی ترجیحات لمحوں میں تبدیل ہو تی جاتی ہیں، اپنی فوری ضروریات کے ساتھ ساتھ تیزی سے تبدیل ہو جاتی ہیں۔کوئی بھوک ، ضرورت کی شدت میں ہر اصول بھول کر کوئی بھی راستہ اختیار کر سکتے ہیں لیکن ایسے بھی ہیں جو حصول کے لئے کوئی بھی راستہ، طریقہ اختیار نہیں کر سکتے، حالانکہ یہ حقیقت ان پہ آشکا ر ہو چکی ہوتی ہے کہ صحیح اور غلط، جائز ،ناجائز کچھ نہیں ہوتا، یہ انسانی ذہن ، انسانی سوچ کے بہروپ ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ایسا نہیں کر پاتے۔ کچھ ترجیحات ایسی ہوتی ہیں جو انسان کے جینز کا حصہ ہوتی ہیں، زندگی کے وہ اہداف، زندگی گزارنے کا وہ طریقہ بدلنا بھی چاہیں تو نہیں بدل سکتے۔ جیسا کہ اپنی ضرورت کو دوسرے کے احساس میں یوں قربان کر دینا کہ کسی کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی۔خود پیاسا رہ کر دوسرے کی پیاس بجھانے کی فکر کرنا، بھوک ، ننگ میں بھی اعلی انسانی اقدار کی پیروی کو ترک نہ کر سکنا۔
اور اب ایسا وقت ہے کہ اگر کوئی میرے تصوراتی ماحول میں ، تمام چیزیں سجا کر میرے لئے رکھ دے ، تمام انتظام کر دے، پھر بھی، میرے لئے خود کو صرف وہاں تک پہنچانا بھی ممکن معلوم نہیں ہوتا،اب دل کرتا ہے کہ اپنے کمرے کو ہی ویسا ماحول سمجھ لوں، کہ میں کشمیر کے پہاڑوں سے بہہ کر آنے والے موسیقی والے پانی کے کنارے بیٹھا ہوا ہوں، خیمہ لگا ہوا ہے، میں خیمے کے باہر بیٹھا لکڑی کی آگ جلا کر کھانا پکا رہا ہوں، جانتا ہوں کہ کمرے میں ایسا ہونا ممکن نہیں، تاہم خیال کرنے، ایسی خواہش کرنے میں کیا ہرج ہے، چاہے اس حسر ت کا پورا ہونا ناممکن ہی کیوں نہ ہو، ایسا تصور کرنا ہی لطف دیتا ہے،تسکین پہنچتی ہے۔
یہ دنیا اچھی ہو جائے گی، جہاں تمام انسانوں کو برابر کا درجہ ، برابر کی حرمت حاصل ہو گی،انسانوں ہی نہیں ہر جاندار، ماحول کی بھی تقدیس کی جائے گی، جانتا ہوں کہ لمحوں میں ترجیحات تبدیل کرتے انسانوں کی دنیا میں ایسا ہونا ناممکنات میں سے ہے، لیکن خواہش کرنے میں کیا ہر ج ہے، اس کا تصور کرنے میں کیا مضائقہ ہے، کہ جب ایسا کرنے سے لطف ملتا ہے،تسکین حاصل ہوتی ہے اور اپنے انسان ہونے کا احساس ہوتا ہے۔
بھیگے شعر اگلتے، جیون بیت گیا
ٹھنڈی آگ میں جلتے، جیون بیت گیا
یوں تو چار قدم پر میری منزل تھی
لیکن چلتے چلتے، جیون بیت گیا
ایک انوکھا سپنا دیکھا، نیند اڑی
آنکھیں ملتے ملتے، جیون بیت گیا
شام ڈھلے اس کو ندیا پر آنا تھا
سورج ڈھلتے ڈھلتے، جیون بیت گیا
آخر کس بہروپ کو اپنا روپ کہوں
اسلم روپ بدلتے، جیون بیت گیا