نواز طاہر:
ملکی سیاست میں 2023ء تہلکہ خیز ثابت ہونے کی پیشگوئی کی جا رہی ہے۔ جس کا مرکز فی الوقت پنجاب ہے۔ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے تحلیل کا فیصلہ واپس لے لیا جائے گا۔ جبکہ سیاسی جنگ لڑنے کیلیے پی ٹی آئی اسمبلیوں میں بھی واپس آسکتی ہے۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف مرکز سے رخصتی کے بعد پنجاب میں حکومت بچانے کیلیے سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق 2022ء کے آخری روز بھی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے قانونی ماہرین سے مشاورت کی۔ جو پورے ماہ دسمبر میں جاری رہی تھیں۔ ذرائع کے مطابق قانونی ماہرین نے اس امر کی وضاحت کی کہ آئین گورنر کو وزیراعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اختیار دیتا ہے اور آئین کے تحت وزیراعلیٰ اس کا پابند بھی ہے اور اس بچنے کا کوئی آئینی راستہ بھی نہیں۔ تاہم اس کیس کو لٹکانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔
جب اس کی تصدیق کیلیے اس قانونی ٹیم میں شامل وکلا سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس کی تردید نہیں کی اور تصدیق سے بھی گریز کرتے ہوئے بتایا کہ یہ داخلی معاملہ ہے۔ جسے میڈیا کے سامنے لانا مقصود نہیں اور ابھی ایسی مزید میٹنگز جاری رہیں گی۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ بدلتے حالات میں اسمبلی کی تحلیل کے فیصلے پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ مردم شماری کا ایشو اور ساتھ ہی ٹیکنوکریٹ حکومت کا معاملہ بھی ہے۔
صوبے میں جاری سیاسی غیریقینی کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ہیومن رائٹس کمیشن کے وائس چیئرمین راجا اشرف کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال اس نظام کا حصہ ہے، جسے ناخواندہ سیاسی قوت کی سپورٹ ہے۔ آج لوگ مفتی محمود، مولانا مودودی، بھٹو، مولانا شاہ احمد نورانی، نواب زادہ نصراللہ اور ولی خان جیسے قائدین اور نظریات کو بھول چکے ہیں اور پارٹیوں پر غیر جمہوری قبضہ ہے۔ پارٹیاں خود سیاسی نظام پر یقین نہیں رکھتیں۔ ایک جماعت اسلامی ہی واحد پارٹی ہے جو اندرونی انتخاب کرواتی ہے۔ لیکن اسے عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہے۔
سیاسی نابالغ نظری کی وجہ سے یہ سسٹم چل رہا ہے اور مضبوط ہو رہا ہے۔ سیاست کرنے والے اس کا حصہ ہونے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ ہی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ عوامی مفاد کسی جماعت کے پیشِ نظر نہیں۔ ایسے میں پی ٹی آئی کے ساتھ چالیس سال سے کم عمر افراد ہیں، جو حقیقی معنوں میں نہیں جانتے کہ اس میں ان کا اور ملک کا کوئی فائدہ نہیں۔ پنجاب میں سیاسی صورتحال ملک میں تبدیلی میں اہم کردار کی حامل ہے اور شاید اگلے عام انتخابات تک موجودہ سیٹ اپ اور غیر یقینی کی یہ صورتحال برقرار رہے گی۔ یاد رہے کہ 2018ء کے عام انتخابات کے دوران اور مابعد اسٹیبشلمنٹ اور عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
اپوزیشن کی طرف سے عمران خان کو سلیکٹڈ وزیراعظم قرار دیا گیا اور جب اپریل میں یہ حکومت گرائی گئی تو عمران خان کی جانب سے نئی آنے والی حکومت کو امپورٹڈ کا خطاب دیا گیا۔ حالانکہ اس سے قبل 6 مارچ کو عمران خان نے میلسی میں جلسہ عام میں اپوزیشن کو دھمکی دی تھی کہ وہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے اور دیکھے کہ جب یہ ناکام ہوگی تو میں ان کے ساتھ کیا کروں گا۔ اس کے دو روز بعد پی ڈی ایم نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ریکوزیشن جمع کروا دی۔ جس کے ساتھ ہی عمران خان نے اسے امریکی سازش قرار دیدیا۔
لیکن تحریک عدم پر ووٹنگ کا جمہوری طریقِ کار اپنانے کے بجائے فرار کا راستہ اختیار کیا اور اس میں بھی ناکام رہے۔ گیارہ اپریل کو شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہوگئے تو پی ٹی آئی نے اسمبلی کا بائیکاٹ کردیا۔ ساتھ ہی عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ جس میں خاص طور پر اس وقت کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ پر ملبہ گرایا گیا۔ جس کا راز عمران خان کے اتحادی وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے بیٹے رکن قومی اسمبلی چودھری مونس الٰہی نے فاش کردیا کہ قمر جاوید باجوہ نے تو عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنانے کی کوشش کی تھی۔ جبکہ اس سے پہلے عسکری قیادت قطعی طور پر نیوٹرل ہونے کا فیصلہ کرچکی تھی۔
اسی دوران عمران خان کے خلاف مختلف مقدمات میں فیصلے آنے پر عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو بھی ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ جو تاحال جاری ہے۔ حالانکہ پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت عدلیہ ہی کے عبوری فیصلے کے تحت قائم ہے۔ یہی حکومت اس وقت پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کا امتحان بنی ہوئی ہے۔