ندیم محمود: پہلا حصہ
پاکستان میں ایک بار پھر دہشت گردی سر اٹھا رہی ہے۔ پچھلے چند ماہ کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اٹھائیس فیصد اضافہ ہوا اور اس کے نتیجے میں پاک فوج کے جوانوں کی شہادتیں ہو رہی ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر پہلے دو روزہ غیر معمولی کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی اور پھر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا۔ یہ اجلاس وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف کے مابین ہونے والی ملاقات کے بعد بلایا گیا۔ اس ساری صورتحال پر ’’امت‘‘ نے معروف دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ سے خصوصی بات چیت کی۔ جو سوال و جواب کی شکل میں نذر قارئین ہے۔
س: ایسی اطلاعات ہیں کہ ملک میں سیکورٹی کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑے آپریشن کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ اس میں کس حد تک حقیقت ہے؟
ج: جی ہاں، یہ فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ اب اس آپریشن کی اسٹرٹیجی تیار کی جارہی ہے۔ جو آپریشن برانچ ایم او ڈائریکٹوریٹ بناتی ہے۔ اس نوعیت کے بڑے آپریشن کے لئے سب سے اہم فنڈز کا معاملہ ہوتا ہے۔ اگرچہ ملک کی معیشت بہتر حالت میں نہیں۔ لیکن پھر بھی اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ کام ہورہا ہوگا۔ اس سے قبل آپریشن راہ راست، راہ نجات اور ضرب عضب سمیت جتنے آپریشنز کئے گئے۔ ان کے لئے اس دور کی حکومتوں نے فنڈز مختص کئے تھے۔ ماضی کی طرح کے آپریشن کے لئے فنڈز کے حصول کے علاوہ دوسرا اہم چیلنج عوام اور پاک فوج کے مابین پہلے جیسا عزت اور احترام کا رشتہ بحال کرنا ہے۔ پاک فوج کے حوالے سے جو بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا گیا۔ اس حوالے سے خاص طور پر صوبہ خیبر پختون خواہ میں پاک فوج کے بارے میں لوگوں کی منقسم آرا ہیں۔ تاہم آرمی کی نئی لیڈر شپ اس پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور یہ رشتہ بتدریج دوبارہ قائم ہورہا ہے۔
س: حالیہ کور کمانڈرز کانفرنس اور پھر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیا اسی سلسلے کی کڑی ہیں؟
ج: عام طور پر کور کمانڈرز کانفرنس ایک روز کے لئے ہوتی ہے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر دو روزہ کور کمانڈرز کانفرنس بلائی گئی، جس میں موجودہ سیکورٹی صورتحال کی ایک مکمل تصویر پیش کی گئی۔ سیکورٹی سے متعلق مختلف امور پر بریفنگز ہوئیں۔ جائزہ لیا گیا کہ دہشت گردوں کو دوبارہ ملک میں سر اٹھانے کا موقع کیسے ملا۔ اجلاس کے شرکا اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ ہماری اپنی کمزوری ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو دوبارہ ان کے علاقے میں آنے کی اجازت دی گئی۔ حالانکہ گزشتہ آپریشن کے نتیجے میں یہاں ان کے ٹھکانے ختم کردیے گئے تھے۔
اگست دو ہزار اکیس میں افغانستان سے اتحادی افواج چلی گئیں۔ بھارت کا بوریہ بستر بھی گول ہوگیا۔ جبکہ افغانستان میں نئی طالبان حکومت آئی۔ اسی برس ستمبر میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ خاموشی سے مذاکرات شروع کر دیئے گئے۔ ایک جرگہ آرہا تھا تو دوسرا جرگہ جارہا تھا۔ تاہم حکومتی سطح پر اس سلسلے میں بات نہیں ہو رہی تھی۔ زیادہ رول جنرل فیض حمید ادا کر رہے تھے۔ خاص طور پر نومبر دو ہزار اکیس میں کور کمانڈر پشاور تعینات ہونے کے بعد انہوں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں خاصی تیزی دکھائی۔ اس دوران سراج الدین حقانی سے بات کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں کو پکڑ کر آپ کے حوالے تو نہیں کر سکتے۔ تاہم ان کے ساتھ مذاکرات کا راستہ کھول سکتے ہیں۔ آپ انہیں پاکستان آنے کا محفوظ راستہ دیں۔ تاکہ افہام و تفہیم سے پائیدار امن قائم ہوسکے۔ اس نوعیت کمٹمنٹ پر مذاکرات شروع کئے گئے۔ اس وقت ٹی ٹی پی کمزور ترین پوزیشن میں تھی۔ کیونکہ ان کے بیرونی سرپرستوں کا ہاتھ اٹھ چکا تھا۔ افغان طالبان کی حکومت نے بھی انہیں صرف پناہ دے رکھی تھی۔ انہیں ہتھیاروں کی فراہمی یا پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں ان کی مدد نہیں کر رہے تھے۔
ہمارا خیال تھا کہ طالبان کے ساتھ چونکہ ہمارے تعلقات اچھے ہیں۔ لہٰذا افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ٹی ٹی پی کا قصہ ختم ہوجائے گا۔ لیکن اس کے برعکس ہوا۔ جس پر مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ٹی ٹی پی نے اس عمل کو ہماری کمزوری اور اپنی طاقت سمجھا۔ مذاکرات میں ٹی ٹی پی کی شرائط تھیں کہ وہ اپنے ہتھیاروں کے ساتھ واپس پاکستان آئیں گے۔ ان کے جنگجوئوں کو رہا کیا جائے گا۔ فاٹا کا پرانا اسٹیٹس بحال کیا جائے گا۔ دراصل بطور کور کمانڈر پشاور جنرل فیض حمید نے سوچا کہ جس طرح جنرل حمید گل مشہور تھے۔ وہ بھی ٹی ٹی پی سے کامیاب مذاکرات کرکے یہ مشہوری حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سوچ کے تحت انہوں نے مذاکرات کے دوران ضرورت سے زیادہ ٹی ٹی پی کو رعایت دی۔ جس میں ہتھیاروں سمیت ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں کو افغانستان سے واپس پاکستان آنے کی اجازت دے دی گئی۔ تاہم شرط یہ رکھی گئی کہ سوات کے جنگجو اپنے شہر تک محدود رہیں گے اور باہر نہیں نکلیں گے۔
اسی طرح شمالی اور جنوبی وزیرستان کے جنگجو بھی اپنے علاقے کی حد تک رہیں گے۔ سوات سے ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ انہوں نے سوات واپس آکر پہاڑوں پر بیٹھنا شروع کر دیا اور پہلے جیسی دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کردیں۔ پھر ٹی ٹی پی جنگجو افغانستان سے جنوبی اور شمالی وزیرستان میں بھی آگئے۔ اس انٹری کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے وہ سرحد پار افغانستان سے حملے کے لئے آتے تھے۔ اب انہیں ملک کے اندر لانچنگ پیڈ مل گیا۔ بتدریج ٹی ٹی پی کا دائرہ بڑھتا چلا گیا اور وہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے سیٹلڈ ایریاز تک آگئے۔ بلوچستان کی پشتون بیلٹ میں بھی انہوں نے اپنی پوزیشن مضبوط کرلی۔ نئی بات یہ ہوئی کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے کالعدم بی ایل اے کے ساتھ بھی تعلق بنالیا۔ قصہ مختصر، پچھلے ایک ڈیڑھ برس سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔
اس سلسلے کو خیبرپختونخواہ کی پی ٹی آئی حکومت نے روکنا تھا۔ اس میں اسے مسلسل ناکامی کا سامنا ہے اور صورتحال اس کے قابو میں نہیں۔ ایسی صورت میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو وفاقی حکومت کی مدد درکار ہے۔ چونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد امن و امان کا مسئلہ صوبائی ہے۔ لہٰذا صوبے کی درخواست پر ہی وفاق فوج بھیج سکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ خیبرپختون خوا میں سیکورٹی حالات بگڑ جانے کے باوجود پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے ابھی تک وفاق سے مدد نہیں مانگی ہے۔ پی ٹی آئی کی تقریباً ساری صوبائی کابینہ زمان پارک لاہور میں بیٹھی ہے۔ یہ خبریں عام ہیں کہ اپنے تعلقات بہتر رکھنے اور جان بچانے کے لئے پی ٹی آئی کے کئی صوبائی وزرا اور رہنمائوں کو ٹی ٹی پی کو بھتہ دینا پڑ رہا ہے۔
صوبے میں سیکورٹی کا معاملہ دن بہ دن خراب ہوتا جارہا ہے۔ محض چند ماہ کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اٹھائیس فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ اگر یہ سلسلہ نہیں روکا گیا تو پھر ماضی جیسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ اسی لئے دہشت گردوں کے خلاف ایک منظم اور بڑے آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ خیبر پختون خوا میں پولیس، دہشت گردوں کا سافٹ ٹارگٹ بن چکی ہے۔ حالانکہ دو ہزار دو کی پولیس اصلاحات کے تحت ایک مضبوط پولیس فورس وجود میں لائی گئی تھی۔ اس پر اس دور کے آئی جی درانی نے بڑا کام کیا تھا۔ جبکہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی کا بھی اہم رول تھا۔ جنہوں نے باقاعدہ آرمی کے انسٹرکٹرز بھیج کر پولیس کی ٹریننگ کرائی تھی۔ لیکن اب صوبے میں پولیس پھر کمزور ہوچکی ہے۔ لہٰذا ٹی ٹی پی انہیں آسانی سے نشانہ بنارہی ہے۔ اس صورتحال میں عوام بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ عوام کو تحفظ فراہم کرنا، حکومت اور فوج کا اولین فرض ہے۔ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ اسی لئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کور کمانڈرز کانفرنس سے پہلے ہی یہ بیان دے دیا تھا کہ نیشنل سیکورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ بعد ازاں کور کمانڈرز کانفرنس میں تمام شرکا نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن پر آمادگی کا اظہار کیا۔ جبکہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلاکر سول حکومت کو بھی آن بورڈ لیا گیا۔
س: دہشت گردوں کے خلاف نئے مجوزہ آپریشن سے متعلق اہم ترین چیلنجز کون سے ہیں؟
ج: اس میں سر فہرست فنڈز کی دستیابی کا معاملہ ہے۔ اسی لئے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی موجودگی یقینی بنائی گئی۔ کیونکہ فنڈز کا بندوبست انہوں نے ہی کرنا ہے۔ پھر یہ کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی سرحد پار سے آمدورفت روکنا ہوگی۔ اس کے لئے باڑھ مینجمنٹ بہتر کرنی ہوگی۔ اگرچہ پاک افغان سرحد پر آہنی باڑھ لگادی گئی تھی۔ لیکن یہ زیادہ موثر نہیں ہے۔ اسے موثر بنانا ہوگا۔ اسی طرح ڈالر کی بڑے پیمانے پر افغانستان اسمگلنگ کو روکنا ہوگا۔ یہ اسمگلنگ پاکستان کی سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں معیشت مزید کمزور ہو رہی ہے۔
آپریشن سے قبل متعلقہ علاقوں کے مقامی عوام کو ساتھ ملانا ہوگا۔ تاکہ انہیں پاک فوج کی آنکھ اور کان بنایا جا سکے۔ انٹیلی جنس سسٹم کو مزید موثر بنانا پڑے گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ابھی جو ہم نے دہشت گردوں کے خلاف کورڈن اینڈ سرچ ڈسٹرائے کی اسٹرٹیجی اپنا رکھی ہے۔ اسے تبدیل کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس اسٹرٹیجی کے تحت کی جانے والی کارروائیوں میں پاک فوج کے جوانوں کی شہادتیں بھی ہو رہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کورڈن اینڈ سرچ ڈسٹرائے کی حکمت عملی تبدیل کرکے ڈرون کا استعمال کیا جائے۔ خاص طور پر شمالی وزیرستان میں سنگلاخ پہاڑ ہیں۔ جہاں رسائی اتنی آسان نہیں۔ لہٰذا جب بھی دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع ملے۔ ڈرون سے ہی انٹیلی جنس لی جائے اور ڈرون سے ہی حملہ کیا جائے۔ ہم ماضی میں شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف ایئر فورس کو بھی استعمال کرچکے ہیں۔
دوسری جانب کالعدم ٹی ٹی پی اور کالعدم بی ایل اے کے گٹھ جوڑ کو توڑنا اہم ترین ہے۔ آئندہ کے لئے ٹی ٹی پی کے ساتھ براہ راست کسی قسم کے مذاکرات نہ کئے جائیں۔ اس قسم کی گفت و شنید براہ راست افغان طالبان حکومت سے ہو۔ کیونکہ انہوں نے کمٹمنٹ دے رکھی ہے کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔ اس وقت ٹی ٹی پی سوائے پاکستان کے کسی اور پڑوسی ملک میں کارروائیاں نہیں کر رہی۔ کیونکہ ہم کمزور ہیں۔ ساتھ ہی افغان طالبان حکومت کو یہ پیغام بھی دینا ہوگا کہ ہمیں آفینسو ڈیفنس کے لئے مجبور نہ کیا جائے۔ ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں۔ اگر آپ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو نہیں روک سکتے تو ہم سرحد پار کارروائی کرکے ٹی ٹی پی کو نشانہ بنانے پر مجبور ہوں گے۔ (جاری ہے)