محمد قاسم:
سونے کی قیمتوں میں اضافے نے پشاور کا صرافہ بازار سنسان کر دیا۔ بیشتر سناروں نے خریدار نہ ہونے پر کاریگروں کو فارغ کرنا شروع کر دیا ہے۔ جس کے باعث بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ شادی بیاہ کا سیزن شروع ہونے پر قیمتوں میں مزید اضافہ متوقع ہے اور فی تولہ سونے کی قیمت 2 لاکھ روپے تک پہنچنے کا امکان ہے۔ تاجروں نے بڑے پیمانے پر سونے کے کاروبار میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے۔
سونے کی قیمت میں مسلسل اضافہ
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق سونے کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد فی تولہ قیمت 1 لاکھ 84 ہزار روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ جس کے باعث لوگوں کی قوت خرید جواب د ے گئی ہے اور چھوٹے موٹے سونے کے زیورات بنانے والے بھی اب صرافہ بازار کا رخ نہیں کر رہے۔ جس کی وجہ سے جہاں لاکھوں روپے دکانوں کا کرایہ ادا کرنے میں سناروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ وہیں بڑی دکانوں سے کاریگروں کو فارغ کیا جانے لگا ہے۔ جبکہ بعض مارکیٹوں اور دکانوں میں کاریگروں کی تنخواہوں پر کٹ لگانے کی شرط پر انہیں کام پر بحال رکھا گیا ہے۔
محمد رزاق گزشتہ پندرہ برس سے سونے کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور اندرون شہر میں ہی اس کاروبار سے منافع کمانے کے بعد انہوں نے نیا گھر تعمیر کیا اور کاروبار کو وسعت بھی دی۔ انہوں نے اپنے ساتھ اپنے بھائی اور پانچ سے چھ کاریگروں کو بھی کام پر رکھا۔ تاہم اب صورتحال اتنی خراب ہو گئی ہے کہ انہوں نے تین کاریگروں کو فارغ کر دیا ہے۔ جبکہ باقی تین کاریگر جو ان کی دکانوں پر گزشتہ پانچ سال سے کام کر رہے ہیں۔ انہیں اس شرط پر بحال رکھا گیا ہے کہ جب تک خریداری نہیں بڑھتی۔ انہیں پوری تنخواہ نہیں ملے گی۔
مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہوئی تو سونے کی قیمت 60 ہزار روپے فی تولہ تھی
’’امت‘‘ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے محمد رزاق نے بتایا کہ حالات بہت خراب ہو گئے ہیں۔ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوئی تو سونا 60 ہزار روپے تولہ سے بھی کم تھا۔ لیکن تحریک انصاف والوں نے کاروبار کا برا حشر کیا اور فی تولہ قیمت ڈیڑھ لاکھ تک پہنچا دیی اور اب حالات بد سے بھی بدترہو گئے ہیں۔ اس وقت سو نا فی تولہ 1 لاکھ 84 ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے اور امکان ہے کہ مزید قیمت بڑھے گی اور دو لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ جس کی بڑی وجہ شادی بیاہ کے سیزن کی شروعات بھی ہے۔ جبکہ ڈالرز کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف حکومتی کارروائیاں بھی ہیں کہ تاجروں نے اب سونے میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے۔
بیروزگاری میں اضافہ
صرافہ بازار پشاورکے وسط میں واقع قدیم ترین بازار ہے۔ جہاں سینکڑوں دکانوں میں سونے اور چاندی کے زیورات کا کاروبار ہوتا ہے۔ تاہم سونا مہنگا ہونے کی وجہ سے اب یہ بازار سنسان پڑا رہتا ہے اور یہاں پر خریدار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بازار میں کام کرنے والے عمران اعوان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ گزشتہ دس برسوں سے اس کاروبار سے وابستہ ہے اور اپنی دکان بھی چلا سکتا ہے۔ لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بطور کاریگر کام کر رہا ہے۔ تاہم اب صورتحال انتہائی خراب ہوگئی ہے۔ گزشتہ تین مہینوں سے وہ گھر میں بیروزگار بیٹھا ہے۔ کیونکہ دکان کو تالہ لگا ہوا ہے۔ جس کی بڑی وجہ سونے کی قیمتو ں میں ہوشربا اضافہ ہے۔
مصنوعی زیورات کی خریداری میں اضافہ
دوسری جانب سونے کی قیمتوں میں اضافے کے بعد مصنوعی زیورات کی خریداری میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ جبکہ وہاں پر بھی صورتحال کچھ ٹھیک نہیں اور قیمتوں کو بڑھا دیا گیا ہے۔ چار سے پانچ ہزار روپے کا سیٹ اب دس سے پندرہ ہزار روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔ اسی طرح چھ چوڑیوں کی قیمت جو پہلے تین ہزار روپے تک تھی۔ اب چھ ہزار روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ جبکہ کانوں کی بالیاں، جھومر اور لاکٹ و چین وغیرہ کی قیمتوں میں بھی چار سے پانچ ہزار روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
مصنوعی زیورات کے کاروبار سے وابستہ محمد اصغر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ پشاور صدر کے بازار میں گزشتہ تین برس سے یہ کاروبار کر رہا ہے۔ تاہم اب جا کر اس کاروبار نے زور پکڑا ہے۔ پہلے تو قیمتوں میں اتنا اضافہ نہیں تھا اور خریداری بھی کم تھی۔ لیکن اب جس انداز سے خریداری شروع ہو گئی ہے۔ انہیں لاہور سمیت دیگر شہروں سے سامان منگوانا پڑرہا ہے۔ کیونکہ اصلی سونا انتہائی مہنگا ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے مصنوعی زیورات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ شادی بیاہ کا سیزن شروع ہونے پر بھی لوگ اب مصنوعی زیورات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ بازار میں خریداری کیلئے آنے والی ایک خاتون نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان کے بیٹے کی شادی ہے اور وہ صرف ڈیڑھ تولہ سونے کا سیٹ یہاں سے خریدیں گی۔ جس کی قیمت بھی تین لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ باقی وہ مصنوعی زیورات خریدیں گی۔ کیونکہ زیادہ سونا خریدنا ان کے بس سے باہر ہے۔
پرانے وقتوں کے سونے کی قدر نہیں رہی اونے پونے فروخت کر دیا
خاتون نے کہا کہ ’’پرانے وقتوں میں دیئے گئے سونے کی ہم لوگوں نے قدر نہیں کی اور اونے پونے داموں اسے فروخت کر دیا یا قرض کی ادائیگی میں دیدیا۔ لیکن اب اس سونے کی قدر محسوس ہو رہ ہے‘‘۔ ایک اور دکاندار نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اب تو چوکیدار کو دینے کیلئے بھی اس کے پاس پیسے نہیں۔ لاکھوں روپے دکان کا کرایہ کہاں سے ادا کریں۔ اسی لئے مجبوری کے باعث دکان خالی کر رہے ہیں۔