خبر ہے کہ راولپنڈی اسلام آباد میں روٹی اور نان کی قیمتیں مزید بڑھا دی گئی ہیں. نان کی نئی قیمت 30 روپے مقرر کی گئی ہے ،جبکہ روٹی 25 روپےکی ملے گی ۔ تاہم یہ سطور شائع ہونے تک ڈالر کی طرح تیزی سے اوپر جاتے آٹے کی قیمت کے ساتھ اگر روٹی پانچ دس روپے مزید مہنگی ہو جائے تو ہم ہرگز ذہ دار نہ ہوں گے۔ ۔واضح رہے کہ بازار میں فائن آٹا 130 سے 140روپے کلو جبکہ دیسی آٹا 150 روپے کلو تک فروخت کیا جارہا ہے۔ یہ وضاحت دوبارہ کر دی جائے کہ یہ ارباب اقتدار اور ارباب "اختیار” کے جڑواں شہروں کی کہانی ہے ، بلوچستان کے دور افتادہ قلعہ عبداللہ یا سندھ کے کندھکوٹ کی نہیں کہ جہاں تک پہنچتے پہنچتے سرکاری رٹ ہانپ جاتی ہے، یا پھر اس کی موت ہی واقع ہو جاتی ہے۔
ایک صاحب کل بتا رہے تھے کہ وہ بیس کلو آٹے کا تھیلا پچیس سو میں خرید کر مہنگائی کا رونا روتے ہوئے گھر پہنچے تو اہلیہ نے بتایا کہ آپ تو دکان لوٹ لائے ، ٹی وی کی خبروں کے مطابق قیمتیں اور بڑھ گئی ہیں، آپ ایساکریں کھڑے پیروں واپس جا کر اس قیمت پر کچھ اور آٹا "لوٹ” لائیں۔ انہوں نے ایک دن کیلئے جان کی امان مانگتے ہوئے عرض کیا کہ آج تھک گیا ہوں، کل لے آؤں گا، ایک دن میں قیمت نہیں بڑھنے والی،اور ویسے بھی دکاندارجاننے والا ہے۔اگلے روز جب دکان پر پہنچ کر آٹا طلب کیا تو اسی تھیلے کی قیمت سو روپے بڑھ چکی تھی ، اس عاجزانہ اعتراض پر کہ آپ نے آٹا تازہ تونہیں منگوایا، پرانا اسٹاک موجود ہے، "جاننے والے” دکاندار کا کہنا تھاکہ آج کل روزانہ کے حساب سے ریٹ بڑھ رہے ہیں ،اور ہم فون کر کے مارکیٹ سےریٹ معلوم کرتے ہیں ، آپ کہیں سے بھی پتہ کر لیں ، اس سے مہنگا ہی ملے گا، دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ساتھ بھی پیٹ لگا ہوا ہے، چھوٹےچھوٹے بچے ہیں ، اور کمائی کا سیزن بار بار نہیں آتا۔
اب ظاہر ہے اس”متاثر کن” دلیل کے بعد خاموشی ہی بھلی تھی، لیکن اس صورت حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاملہ صرف طلب اور رسد کا نہیں بلکہ آٹے کی قیمت جس سپر سونک رفتار سے بڑھ رہی ہے،اس میں ہر کوئی حسب استطاعت حصہ ڈال رہا ہے،اس مافیا کی بے فکری اور بے نیازی کا سبب یہ ہے کہ حکومت دیگر اہم کاموں میں مصروف ہے، لہٰذاانتظامیہ سے کوئی جواب طلب کرنے والا ہے نہ گرفت کرنے والا۔ ویسے بھی اہل اقتدار کہ نزدیک یہ کوِئی مسئلہ نہیں ہے ، اس لئے کہ تندور پر قطارمیں کھڑے ہو کر روٹی خریدنے والا نوے فیصد غریب اور محنت کش طبقہ ہے جس کیلئے صرف روٹی کا خرچہ دو تین برس پہلے کے پورے کچن کےاخراجات سے بھی بڑھ گیا ہےاور اس طبقے کی اکثریت اب روٹی کے ساتھ دال سبزی یا گوشت جیسی عیاشی کی متحمل نہیں رہی۔
اگر کوئی حبیب جالب آج زندہ ہوتا تو 22 کروڑ عوام کی حالت زار پر نئے انداز سے نوحہ کناں ہوتا۔۔ جیسے بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں جالب نے لکھا تھا ۔۔
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
اگر خون کے آنسوؤں سے اشعار کو سینچنے والے ظرافت کے شہنشاہ دلاور فگارحیات ہوتے تو اپنی فگار انگلیوں سے عوام کے زخم زخم ارمانوں کا نوحہ ہائیکو شاعری میں بیان کرتے۔۔
کیسے کھائیں نان
ان داتا حل کر دے
آٹے کا بحران
معلوم نہیں مشقت کی زندگی گزارنے والا اور مزدور کے ہاتھوں کے چھالوں کا درد اپنے دل پر محسوس کرنے والا بابانجمی کہاں ہے جس نے بے نظیر بھٹو ہی کے دور میں ایک یا دو روپے آٹا مہنگا ہونے پر دہائی دی تھی ۔۔
بی بی رانی بڑا ہنیر
آٹا دس روپیے سیر
مگر آج بابا نجمی شاید اس لئے بھی خاموش ہیں کہ جس تیزی سے آٹے کی قیمت بڑھ اور روٹی کا وزن کم ہوتا جا رہا ہے، اس میں شعر کو وزن میں رکھنا مشکل ہو جاتا ۔ایک زمانے میں شاعر کم ہوتے تھے مگر وہ عوامی مسائل پر سخن آرائی زیادہ کیا کرتے تھے، آج سوشل میڈیا کی برکت سے شاعروں کی آبادی بے قابو ہو رہی ہے مگر ان کی مصروفیت بھی بڑھ گئی ہے۔ ان کی توجہ محبوب کی زلفوں کے ساتھ ساتھ اپنے لباس اور تراش خراش پربھی ہوتی ہے، کیونکہ شاعری اب پڑھنے اور سننے سے زیادہ آرائش و زیبائش کی چیز ہو کر رہ گئی ہے،کہیں بھولے سے حکیم احمد نعیم ارشد جیسے اکا دکا شاعر اگر عام آدمی کے درد کو اشعار کی زبان دیتے بھی ہیں تو ان کے اشعار بھی سوشل میڈیا پوسٹوں کا حسن بڑھانے سے زیادہ کام نہیں آتے، بالکل اسی طرح جیسے حبیب جالب کی انقلابی نظموں کو سیاسی جلسوں میں رنگ جمانے کیلئے ترنم سے پڑھا جاتا ہے اور پھر جب یہ "انقلاب” اقتدار کی چوکھٹ پر دم توڑ دیتا ہے تو حسب معمول محلات میں دیپ جلنے لگتے ہیں اور غریب کا چولہا ٹھنڈا اور پیٹ خالی رہتا ہے۔
سوآج کے شاعرکو عوام کے چھوٹے موٹے مسائل اور رونے دھونے پر توجہ دینے کی فرصت نہیں۔ اس نے خود کو جدید میڈیا کی چکاچوند سے ہم آہنگ کر لیا ہے۔وہ کارپوریٹ میڈیا جو بھوک ننگ اور افلاس زدہ چہروں سے اپنی اسکرینوں کو آلودہ نہیں کرنا چاہتا ، بلکہ اس کے اینکر امپورٹڈ سوٹ پہن کر یومیہ بنیادوں پر ٹاک شوز کا میلہ سجاتے ہیں اور اپنے ناظرین کو اسی سیاسی اشرافیہ کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھتے ہیں جس کی کلاس کا وہ خود بھی حصہ بن گئے ہیں۔ان کی بحث کا موضوع مصنوعی نوعیت کے وہ مسائل ہیں جو اسی اشرافیہ کے پیدا کردہ ہیں، چاہے اس کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے۔ وہ ان مسائل کا حل انہی سے دریافت کرتے ہیں ۔ البتہ کبھی کبھار فیشن کے طور پر ملک کی پچانوے فیصد غریب اور لوئر مڈل کلاس کا ذکر بھی آ جاتا ہے جو اس بات کا رونا روتی ہے کہ اس کا سب سے بڑا مسئلہ روٹی ہے۔
وہ روٹی جو اب اس کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے اور اس کے بچوں کے لئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ مگر پھر غریب کی آواز بریکنگ نیوز کی چنگھاڑ اور اس سے منسلک ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہاروں کی یلغار میں دب جاتی ہے کیونکہ یہی اشتہاری کمپنیاں جدید کارپوریٹ میڈیا کیلئے خبروں کی ترجیحات کا تعین کرتی ہیں اور انہی کی ترجیحات سے اینکر حضرات کی روزی روٹی بھی وابستہ ہے۔ رہ گئے ہمارے تجربہ کار اور سکہ بند لکھاری تو ان کی ساری توانائی ان اہم قومی امور پر صرف ہو جاتی ہے کہ جنرل باجوہ کے کپ میں کیک رس کی گہرائی کتنی ہے،شہباز کی پرواز انہیں 2024 تک لے جائے گی یا وہ وقت سے پہلے صیاد کے دام میں آ جائیں گے،۔عمران خان کی اگلی آڈیو یا ویڈیو میں کون کون سے کردار جلوہ گر ہوں گے،میاں نوازشریف کی ہتھیلی پر چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی لکیر ہے یا مٹ چکی، اور مفاہمت کے بادشاہ آصف زرداری اب کی بار عدم اعتماد کی تحریک میں کون کون سے کارڈ کھیلیں گے؟