امت رپورٹ:
مریم نواز پارٹی کی تنظیم نو کا آغاز پنجاب سے کریں گی۔ اس کے بعد دیگر صوبوں کے علاوہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر بھی جائیں گی۔ پارٹی کے ناراض مقامی عہدیداروں اور گھر بیٹھ جانے والے کارکنوں کو منانے کا ٹاسک بھی انہیں دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ مریم نواز کو نون لیگ کی سینئر نائب صدر مقرر کرتے ہوئے ہر سطح پر پارٹی کی تنظیم نو کی ذمy داری دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں پارٹی صدر شہباز شریف کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں مزید کہا گیا کہ مسلم لیگ نون کے آئین کے تحت حاصل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے مریم نوازکو سینئر نائب صدر مقرر کرنے پر خوشی ہے۔
لندن میں شریف خاندان کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ پارٹی کے اندر مریم نواز کو اہم عہدہ دینے سے متعلق مشاورت کافی عرصے سے چل رہی تھی۔ خاص طور پر تین ماہ قبل مریم نوازکے لندن پہنچنے کے بعد سے اس مشاورت میں تیزی آئی۔ آخر کار انہیں پارٹی کی کمان سونپنے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس سلسلے میں پارٹی کے سرگرم ضلعی عہدیداران اور کارکنوں کی رائے بھی لی گئی۔
ان ذرائع کا دعویٰ تھا کہ پارٹی کی سینئر قیادت اور کارکنوں کے اتفاق رائے کے بعد مریم نواز کو چیف آگنائزر بنایا گیا۔ تقریباً سب کی رائے تھی کہ الیکشن میں جانے سے پہلے پارٹی کو دوبارہ منظم اور کارکنوں کو متحرک کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اس کام کے لئے مریم نواز سب سے موزوں شخصیت ہیں۔ نون لیگ لندن کے ایک اہم عہدیدار کے بقول پارٹی میں نواز شریف کے بعد مریم نواز ہی کرائوڈ پُلر (عوام کو باہر نکالنے کی صلاحیت رکھنا) ہیں۔ لہٰذا جو لوگ ان کے نئے عہدے کو موروثی سیاست سے جوڑ رہے ہیں۔ وہ نواز شریف کو چھوڑ کر پارٹی کے کسی ایسے رہنما کا نام بتا دیں جو کرائوڈ پُلر ہو۔ عمران خان کے جلسوں کو کائونٹر کرنے کے لئے بڑے عوامی اجتماع کر کے مریم اپنی اس صلاحیت کا لوہا منوا چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے بیشتر سینئر رہنمائوں نے مریم نواز کے نام پر اتفاق کیا۔ پارٹی عہدیدار کے مطابق تئیس جنوری تک نواز شریف اور مریم نواز کے ایک ساتھ پاکستان جانے کے پروگرام پر مشاورت جاری ہے۔ حتمی فیصلہ حالات کو دیکھ کر کیا جائے گا۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ دونوں باپ بیٹی ایک ساتھ واپس آئیں گے۔ اس پروگرام کا انحصار بھی حالات پر ہے۔
ادھر لاہور میں موجود نون لیگی ذرائع نے بتایا کہ پنجاب میں پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو حمزہ شہباز دیکھتے رہے ہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں اس حوالے سے ان کی کارکردگی سے پارٹی قائد نواز شریف اور پارٹی صدر شہباز شریف دونوں مطمئن نہیں تھے۔ حمزہ شہباز کا معاملہ یہ تھا کہ وہ زیادہ تر لاہور میں ڈیرے ڈالے رکھتے ہیں۔ کبھی کبھار جڑواں شہر اسلام آباد اور راولپنڈی کا چکر لگا لیتے ہیں۔ جبکہ پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لیے پورے پنجاب اور ملک بھر کے طوفانی دوروں کی ضرورت ہے۔ پھر یہ کہ مریم نوازکی طرح حمزہ شہباز کرائوڈ پُلر بھی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مریم نواز کو پارٹی کی کمان سونپنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وہ پارٹی کی تنظیم نو کا آغاز گراس روٹ لیول سے کریں گی۔ اس سلسلے میں وہ پنجاب اور خاص طور پر جنوبی پنجاب کے اضلاع میں پارٹی کے عہدیداروں سے ملاقاتیں کریں گی۔ اس دوران وہ ناراض سرگرم مقامی عہدیداران یا موجودہ حالات سے دلبرداشتہ ہوکر گھروں میں بیٹھنے والے کارکنان سے بھی رابطہ کریں گی۔ تاکہ انہیں دوبارہ متحرک کیا جاسکے۔ جبکہ تحریک انصاف سمیت دیگر پارٹیوں کے ناراض عہدیداران اور کارکنوں سے رابطہ کا ٹاسک بھی انہیں دیا گیا ہے۔
نون لیگی ذرائع نے بتایا کہ پنجاب کے بعد مریم نواز سندھ کا دورہ کریں گی۔ اس کے بعد صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کا نمبر آئے گا۔ تب تک گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی موسم کی شدت کم ہو چکی ہوگی اور مریم نواز کو وہاں دورے میں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ نون لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ مختلف پارٹی اجلاسوں میں یہ محسوس کیا گیا ہے کہ نون لیگ کا نوجوان اور جواں سال کارکن خاصا غیر متحرک ہو چکا ہے۔ حتیٰ کہ پارٹی سے تعلق رکھنے والی نوجوان نسل سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتی جارہی ہے۔ مریم نواز پارٹی کے نوجوانوں کو واپس سیاسی دھارے میں لائیں گی۔
نون لیگی ذرائع کے مطابق گراس روٹ لیول پر پارٹی کو منظم کرنے کے لئے طوفانی دوروں کے علاوہ پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم کو مزید موثر بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ خاص طور پر پارٹی کے سابق اور موجودہ ارکان پارلیمنٹ کے خاندانوں کے وہ بچے جو بیرون ملک سے تعلیم حاصل کرکے آئے ہیں۔ انہیں سوشل میڈیا ٹیم کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
نون لیگی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پارٹی کی تنظیم نو کا عمل دراصل آئندہ الیکشن کی انتخابی مہم ہے۔ لہٰذا تنظیم نو کے دوران رابطہ مہم پر خصوصی توجہ رکھی جائے گی اور منتخب بڑے شہروں میں مریم نواز جلسے جلوس بھی کریں گی۔ ذرائع کے بقول نواز شریف چونکہ عمر رسیدہ ہو چکے ہیں اور بیمار بھی ہیں۔ لہٰذا انتخابی مہم میں مریم نواز ان کے شانہ بشانہ ہوں گی۔ ایک اہم لیگی عہدیدار کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر موجودہ اسمبلیاں اپنے مقررہ وقت اگست تک برقرار رہتی ہیں تو پھر کسی مضبوط حلقے کی سیٹ خالی کراکر مریم نوازکوالیکشن لڑانے کا آپشن بھی رکھا گیا ہے۔ تاکہ انہیں رکن قومی اسمبلی بناکر نہ صرف پارلیمنٹ میں لایا جائے۔ بلکہ اہم وزارت بھی سونپ دی جائے۔