محمد قاسم :
پلاسٹک کے تھیلوں میں گیس کا رجحان پشاور سے نکل کر صوبے کے دیگر اضلاع تک پھیل گیا۔ سخت اور موثر کارروائیاں نہ ہونے کے باعث صوبہ بھر میں گیس کا غیرقانونی اور خطرناک استعمال جاری ہے۔ دوسری جانب مختلف اضلاع میں دفعہ 144 کے تحت پابندی اور کریک ڈائون کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے۔ تاہم خفیہ طور پر کاروبار انتہائی منافع بخش بنتا جارہا ہے۔ کیونکہ حکومت کی جانب سے سی این جی اسٹیشن بند کرنے کے فوائد سے عوام تا حال محروم ہیں اور پشاور سمیت کئی اضلاع میں گیس لوڈشیڈنگ اور کم پریشر کے مسائل جوں کے توں ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق پلاسٹک کے تھیلوں میں گیس بھر کر فروخت کرنے کا کاروبار صوبائی دارالحکومت پشاور کے علاوہ صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی پھیل چکا ہے۔ جہاں اس خطرناک کاروبار سے دکاندار بڑے پیمانے پر منافع اور پیسہ کما رہے ہیں۔ تاہم کاروبار کو وسعت ملنے کے بعد حکومت خواب غفلت سے جاگ گئی ہے اور کوہاٹ سمیت کرک اور دیگر اضلاع میں دفعہ 144 کے تحت پلاسٹک تھیلوں کے کاروبار سے وابستہ دکانداروں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کر دیا گیا ہے اور پابندی بھی عائد کر دی گئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق کرک میں ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر پولی تھین بیگز میں گیس بھر کے فروخت کرنے والے دکانداروں کو فوری طور پر کاروبار بند کرنے کے نوٹس جاری کر دیئے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ اگر کوئی دکاندار پلاسٹک کے تھیلے میں گیس بھر کر فروخت کرتا پایا گیا تو سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ڈپٹی کمشنر کوہاٹ فرقان اشرف نے بھی دفعہ 144 ضابطہ فوجداری کے تحت ضلع کی حدود میں پلاسٹک تھیلوں کی خرید وفروخت اور ان میں گیس و ایل پی جی بھرنے پر فوری طور پر ایک ماہ کیلئے پابندی عائد کردی ہے۔
عوامی حفاظت کے تحت جاری کردہ اس حکم کی خلاف ورزی ضابطہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 188 کے تحت قابل سزاہے۔ واضح رہے کہ پشاور سمیت صوبے کے اکثر علاقوں میں پلاسٹک شاپنگ بیگز کی نئی ٹیکنالوجی کا استعمال بدستور جاری ہے۔ جبکہ کرک میں مقامی لوگ گیس کے بڑے پائپوں سے تھیلے لے جا کر گیس بھرکر لا رہے ہیں۔ جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی ہیں۔ پشاور کے مصروف ترین بازاروں سمیت گلی کوچوں میں پلاسٹک تھیلوں کی فروخت جاری ہے۔ دکانداروں نے خفیہ خانوں اور الماریوں میں تھیلے چھپا کر فروخت کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ کرک میں مقامی لوگ ایک عرصے سے گیس کی مین لائنوں سے تھیلے بھر کر گھروں کو لے جارہے ہیں۔
سوئی نادرن کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ تھیلے چلتے پھرتے بم ہیں۔ تاہم شہریوں کی جانب سے گیس لوڈ شیڈنگ اور کم پریشر کی وجہ سے ان کا استعمال بے دھڑک جاری ہے۔ پشاور کے شہری علاقے سے تعلق رکھنے رکھے والے محمد نعیم نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ایسے تجربات پہلے پشاور سے شروع ہوئے کیے گئے۔ لیکن موثر کارروائیاں نہ ہونے پر یہ خطرناک رجحان صوبے کے دیگر اضلاع تک بھی پھیل گیا۔ پشاور میں اب بھی پلاسٹک کے تھیلے سر عام اور خفیہ طور پر فروخت کیے جارہے ہیں اور ان میں گیس بھر بھر کے لوگ گھروں کو لے جاتے ہیں۔
کرک سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق سی این جی اسٹیشنز بند ہونے کے باوجود گھریلو صارفین گیس کیلئے ترس گئے ہیں اور گزشتہ تین سے چار روز کے دوران پلاسٹک کے بیگز کی فروخت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ جس کے بعد انتظامیہ نے جہاں کریک ڈائون شروع کر دیا۔ وہیں دفعہ 144 بھی نافذ کر دی۔ لیکن پھر بھی خفیہ طور پر یہ کاروبار بدستور جاری ہے۔ ایک دکاندار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اب تو موٹر سائیکلوں پر بھی یہ شاپنگ بیگز فروخت ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ کیونکہ گیس کہیں بھی نہیں اور لوگ مجبوری کے باعث یہ بیگز خرید رہے ہیں۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبرپختون کے معاون خصوصی اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ کرک میں گیس پائپ لائنوں سے پلاسٹک تھیلوں میں گیس بھرنے والوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ مقدمات درج کر کے گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔ یہ کارروائیاں صوبے کے چند دیگر اضلاع میں بھی عمل میں لائی گئی ہیں۔ پلاسٹک کے تھیلوں میں گیس بھر کر خود اور دیگر شہریوں کو خطرے میں ڈالنے والے کئی افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
صوبے کے کسی بھی شہر اور علاقے میں ایسے خطرناک عمل کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جس سے انسانی زندگیوں اور املاک کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ تھیلوں میں گیس بھرنا اپنی جان پر کھیلنے کے مترادف ہے۔ بیرسٹر سیف نے کرک کے عوام سے اپیل کی ہے کہ اس خطرناک عمل سے دور رہیں۔