حساس اداروں کی رپورٹس پر ترقی پانے والے بھی لپیٹ میں آئے، فائل فوٹو
 حساس اداروں کی رپورٹس پر ترقی پانے والے بھی لپیٹ میں آئے، فائل فوٹو

’’ایف بی آر کا پرائیویٹ نیٹ ورک افسران کی جیبیں بھرنے لگا‘‘

عمران خان:
ایف بی آر میں سنیٹری ورکرز کے نام پر آئی ڈیز چلانے کا انکشاف ہوا ہے۔ مذکورہ آئی ڈیز کے ذریعے کئی ٹیکس دہندگان افراد اور کمپنیوں کو ٹیکس چوری کرنے اور ادائیگیوں کیلیے نوٹس جاری کیے گئے اور بعد ازاں ان سے پُرکشش مراعات کے عوض معاملات طے کرلئے گئے۔ انکم ٹیکس بلڈنگ کے نویں فلور پر کارپوریٹ ٹیکس آفس کے چیف کمشنر اور کمشنرز کے ماتحت اسکینڈل سامنے آنے کے بعد اس کو خاموشی سے دبا دیا گیا۔

ایف بی آر کراچی کے دفاتر میں بشمول ریجنل ٹیکس آفس، میڈیم ٹیکس آفس، لارج ٹیکس پیئرز یونٹ اور کارپوریٹ ٹیکس آفس سمیت دیگر میں 200 سے زائد افراد پر مشتمل پرائیویٹ نیٹ ورک قومی خزنے کو تاریخی نقصان پہنچانے کا باعث بن گیا۔ جن میں کئی ریٹائرڈ ملازمین بھی شامل ہیں۔ جنہیں کانٹریکٹ پر من پسند افسران نے رکھا ہوا ہے اور انہیں معاملات طے کرنے کیلئے فرنٹ مین کی حیثیت سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

’’امت‘‘ کو ایف بی آر کے باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے ایف بی آر کے دفاتر میں پرائیویٹ نیٹ ورک ایک بار پھر سے سرگرم ہوگیا ہے۔ حالانکہ گزشتہ برسوں میں اس نیٹ ورک کو ختم کرنے کیلئے اعلیٰ سطح پر کئی اقدامات کیے گئے اور ہیڈ کوارٹرز سے مختلف ہدایات بھی جاری کی جاتی رہیں۔ تاہم کچھ عرصہ سرگرمیاں رکنے کے بعد اب پھر بحال ہوگئی ہیں۔ اسی دوران ایف بی آر کراچی کے انکم ٹیکس آفس کی بلڈنگ میں نویں منزل پر قائم کارپوریٹ ٹیکس آفس (سی ٹی او) میں ایف بی آر افسران کی سرپرستی میں چلنے والے اسی پرائیویٹ نیٹ ورک کی ایک کارستانی کا انکشاف ہوا ہے۔ جس کی ابتدائی چھان بین کے مطابق یہاں پر کم از کم دو سنیٹری ورکرز کے نام پر آئی ڈیز بنوائی گئیں۔ جنہیں دو پرائیویٹ افراد چلاتے رہے۔ انہوں نے کمپیوٹرز سے کئی ٹیکس دہندگان اور کمپنیوں کو ٹیکس چوری کرنے اور ادائیگیوں کیلئے نوٹس جاری کیے اور بعد ازاں پرکشش مراعات کے عوض معاملات طے کرلئے۔

اسکینڈل سامنے آنے کے بعد سے ایف بی آر کے ملازمین جان بچانے کیلئے منظر عام سے غائب ہوگئے۔ جبکہ پرائیویٹ افراد کو بھی سائیڈ پر کردیا گیا۔ جبکہ اس معاملے پر اعلیٰ سطح کی محکمہ جاتی انکوائری کرنے اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کے بجائے اس معاملے کو دبا دیا گیا ہے۔ تاکہ سی ٹی او کے اعلیٰ افسران کو سبکی اور کارروائی سے بچایا جاسکے۔ ان ذرائع کے بقول قوانین کے مطابق اس معاملے پر محکمہ جاتی انکوائری کے بعد ملوث افسران کا تعین کرکے انہیں سزا دی جانی چاہیے اور ایف آئی اے کو معاملہ بھیج کر اس کے ذریعے کی جانے والی کرپشن کا تخمینہ لگانے کے بعد انسداد رشوت ستانی کی دفعات کے ساتھ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت مقدمہ کیا جانا چاہیے۔

واضح رہے کہ رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں ایف بی آر اپنے لئے مقررکردہ ہدف کے مطابق محصولات جمع کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جس کی وجوہات میں سے ایک وجہ افسران کا پرائیویٹ نیٹ ورک بھی ہے۔ جو انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور دیگر قسم کے ٹیکس چوری کرنے میں ملوث کمپنیوں اور افراد سے پوری ادائیگیاں وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کروانے کے بجائے ساز باز کرلیتا ہے۔ اور روزانہ کی بنیاد پر جو کروڑوں روپے قومی خزانے میں جمع ہونے چاہئیں وہ پرائیویٹ نیٹ ورک کے ذریعے افسران کی جیبوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ اسی سے پرائیویٹ نیٹ ورک کے خرچے اور تنخواہیں بھی پوری کی جاتی ہیں۔

ذرائع کے بقول انکم ٹیکس بلڈنگ میں جہاں آر ٹی او، ایم ٹی، لیگل برانچ اور سی ٹی او کے چیف کمشنر ڈاکٹر نجیب اور کمشنر ظفر رفیق، اسلم مری، نائب علی، رفیق میمن اور دیگر کے ماتحت دفاتر قائم ہیں۔ یہاں پر سرگرم پرائیویٹ اور کانٹریکٹ ملازمین میں اسٹینو طیب، محبوب، مجیب، شبیر، اعجاز احمد کے نجی ملازم وقاص، چوہدری ناصر کے 5 افراد سمیت 200 سے زائد افراد سرگرم ہیں۔ جنہیں نہ صرف ایف بی آر کے ڈیٹا تک رسائی حاصل ہے۔ بلکہ وہ افسران کے نام ایکٹو کی گئی آئی ڈیز استعمال کر کے سرکاری کمپیوٹرز پر بیٹھ کر بھی کام کر رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ٹیکس دہندگان شہریوں کا حساس اور اہم ڈیٹا لیک ہونے اور اس کے غلط استعمال کے امکانات اور خدشات بہت بڑھ چکے ہیں۔

ذرائع کے بقول صرف انکم ٹیکس بلڈنگ صدر سیکریٹریٹ میں پانچویں منزل سے ساتویں منزل تک آر ٹی او ون کے پانچ زونز میں ایف بی آر افسران نے 25 زائد پرائیویٹ افراد اور ریٹائرڈ ملازمین اپنے ایسے کاموں کے لئے رکھے ہوئے ہیں۔ جنہیں اضافی آمدنی سے تنخواہیں اور کمیشن ادا کیا جا ر ہا ہے۔

’’امت‘‘ کو موصولہ اطلاعات کے مطابق اس وقت ریجنل ٹیکس آفس ون کراچی کے کمشنر قاضی افضال ہیں۔ ان کے ماتحت ڈپٹی کمشنر الطاف کھوڑو، چوہدری نثار اور ڈپٹی کمشنر اعظم مغل سمیت دیگر افسران تعینات ہیں۔ یہاں پر جو پرائیویٹ افراد اور ریٹائرڈ ملازمین ان کاموں کیلئے سرگرم ہیں۔ ان میں عمیر، اعجاز، معید اللہ، سعود، فہد اور دیگر شامل ہیں۔ ان میں سے کئی افراد ایف بی آر افسران کے بنگلوں میں رہائش پذیر ہیں۔ ’’امت‘‘ کو متعدد ایسی دستاویزات موصول ہوئی ہیں۔ جن میں کئی کمپنیوں کو کروڑوں روپے مالیت کے سامان کے اسٹاک پر ٹیکس چھپانے، پوائنٹ آف سیل نصب نہ کرنے، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس گوشوارے غلط داخل کرنے سمیت دیگر حوالوں سے نوٹس جاری کیے گئے۔ تاہم بعد ازاں انہی کمپنیوں کو نوٹس جاری کرکے کلیئر کردیا گیا۔

یہ پرائیویٹ نیٹ ورک افسران کیلئے کمپنیوں اور ٹیکس دہندگان سے لین دین کرنے کے ساتھ ہی سرکاری ریکارڈ سے ٹیکس دہندگان کی اہم معلومات حاصل کرکے شہر میں قائم اپنے نجی ٹیکس کنسلٹنسی دفاتر میں استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح سے ایف بی آر افسران خود سامنے آنے سے محفوظ رہتے ہیں۔ ان دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ ماہ عدالت کی جانب سے فیصلے میں واضح طور پر احکامات دیئے گئے کہ ایف بی آر کے آڈیٹرز افسران انچارج کی حیثیت سے نوٹس کرنے یا کیسز پر کام کرنے سے گریز کریں۔ کیونکہ یہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ تاہم ذوالفقار کھوکھر، نورحسین، الطاف کھوڑو، نورالعارفین، دھنی بخش، اعظم نفیس، ندیم اشرف بیگ، ندیم دررانی اور محمد حنیف کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض کی جانب سے مختلف کمپنیوں کو ارسال کیے گئے نوٹسز کی کاپیاں ’’امت‘‘ کو موصول ہوئی ہیں۔