ہنڈیا کو آگ پر رکھنے کے کچھ ہی دیر بعد اندر سے آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔فائل فوٹو
ہنڈیا کو آگ پر رکھنے کے کچھ ہی دیر بعد اندر سے آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔فائل فوٹو

’’چڑیل کو ہنڈیا میں بند کرکے مارا‘‘

میگزین رپورٹ :
عملیات کی دنیا سے وابستگی کا تذکرہ کرتے ہوئے روحانی عامل صوفی صاحب کا کہنا تھا ’’میں بہت کمسن تھا جب میرے والدین فوت ہوگئے۔ چناں چہ ہوش سنبھالتے ہی کام کی طرف توجہ دی اور بہت جلد چند کام سیکھ کر با عزت روزگار کمانے کے قابل ہوگیا۔ عمر کے ابتدائی دور میں ہی مجھے عملیات کو سیکھنے کا شوق پیدا ہوگیا تھا۔ ابتدا میں کتابوں سے پڑھ کر بہت سے عملیات سیکھنے کی کوشش کی۔ مثلاً انگوٹھے پر سیاہی لگاکر موکلات کو حاضر کرنا وغیرہ۔ کام کاج کی مصروفیات کے باوجود میں نے عملیات سیکھنے کی کوشش بطور شغل جاری رکھی‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’36 سال پہلے کی بات ہے۔ ان دنوں میرے پاس ایک عامل آیا کرتے تھے۔ انہوں نے بہت سارے عمل کیے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس جنات کو جان سے مارنے کے بہت سے عجیب و غریب عمل تھے۔ یہاں تک کہ وہ بعض اوقات سرکش جنات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے درختوں میں ٹھونک دیا کرتے تھے۔ ایک دن وہ بہت خوش گوار موڈ میں بیٹھے تھے کہ میں نے انہیں اپنی دلی خواہش سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے جنات کو تسخیر کرنے کا بہت شوق ہے۔ میرے جذبات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے وظیفے کا طریقہ سمجھاکر اجازت دے دی۔

اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت زیادہ قوت ارادی سے نوازا ہے۔ کوئی بھی کام کرنا ہو میری کوشش ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد مکمل ہوجائے۔ اس عادت کی بنا پر میں نے استاد کے بتائے ہوئے طریقے پر دوگنی تیزی سے عمل شروع کر دیا۔ اس دوران میں نے استاد کی نگرانی کی پروا بھی نہیں کی۔ کیوں کہ اللہ کے فضل سے میرا ارادہ بہت مضبوط ہوتا ہے۔ جب میں کسی کام کو کرنے کا فیصلہ کرلوں تو پھر نتائج کی پروا کیے بغیر اس کام کو مکمل کرکے ہی دم لیتا ہوں۔ اس عمل کو کرنے میں روزانہ تقریباً دو گھنٹے صرف ہوتے تھے۔ دس بارہ دن کے بعد ہی میری امید بر آئی۔

ہوا یوں کہ ایک رات تہجد کے وقت میں عمل کرنے میں مصروف تھا کہ مجھ پر غنودگی کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ اس حالت میں مجھے دو ہیولے نظر آئے۔ ایک سفید اور دوسرا کالے کپڑوں میں ملبوس تھا۔ دونوں نے اپنے چہرے چھپا رکھے تھے۔ وہ دونوں میرے سامنے آکر بیٹھ گئے۔ ان کے اور میرے درمیان نہ تو کوئی بات چیت ہوئی نہ انہوں نے کوئی مطالبہ کیا اور نہ ہی شرائط وغیرہ طے ہوئیں۔ موکلات کی حاضری کے اس واقعے سے مجھے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ میں اپنے عمل میں کامیاب ہوگیا ہوں۔ میرے ذہن میں ہی نہیں تھا کہ موکلات اتنی جلدی میرے زیر اثر ہوجائیں گے۔ میں نے عمل جاری رکھا۔ اور اس دوران روزانہ موکلات کی حاضری بھی ہوتی رہی۔ لیکن میں آخری وقت تک لاعلم ہی رہا کہ میں عامل بن گیا ہوں۔

انہی دنوں ایک واقعہ ایک شادی والے گھر میں پیش آیا۔ ہمارے گھر کے قریب ہی ایک شادی کا پروگرام تھا۔ شادی والے گھر سے ایک لڑکے نے آکر مجھے بتایا کہ میری پھوپھی کے سر میں شدید درد ہو رہا ہے۔ مہربانی فرماکر آپ ہمارے گھر میں آکر انہیں دم کر دیں۔ میں اس کے ساتھ ان کے گھر گیا اور مریض پر سردرد کا دم کرنے کی نیت سے سورۃ الناس پڑھ کر پھونک ماری۔ مگر بجائے اس کے کہ اسے آرام آتا۔ اس کے جسم میں ایک چڑیل حاضر ہوگئی اور مریضہ کو دورہ پڑگیا۔ وہ چڑیل بہت ہوشیار تھی۔ حاضر ہوتے ہی کہنے لگی کہ آپ کسی خوش فہمی میں نہ رہیں۔ میں آپ کے قابو آنے والی نہیں۔

میں نے اسے کہا ٹھیک ہے۔ اب تم جائو۔ مگر میں بہت جلد ہی تم سے دوبارہ ملوں گا۔ واپس آکر میں نے اپنے ایک جاننے والے مولوی صاحب سے رابطہ کیا اور انہیں تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ وہ روحانی علاج میں کافی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے مجھے تسلی دی اور کہنے لگے کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ اس چڑیل کا مستقل علاج کر دیں گے۔ ان کے پاس ایک بہت زبردست اور مجرب تعویذ تھا۔ جس کے ذریعے وہ جنات کو جلاکر بھسم کر دیا کرتے تھے۔ دوسرے دن ہم نے اس چڑیل کا ستیا ناس کرنے کا پروگرام بنایا۔

وقت مقررہ پر میں اور مولوی صاحب شادی والے گھر پہنچ گئے۔ انہوں نے مٹی کی ایک چھوٹی ہنڈیا منگوائی۔ اس میں پائو بھر دال ماش (چھلکے والی) اور ایک مربع فٹ کاغذ پر بنا ہوا تعویذ ڈالا جو وہ اپنے ہمراہ لائے تھے۔ اس تعویذ پر پہلے کچھ پڑھ کر پھونک ماری تھی اور اسے مٹی کی ہنڈیا میں رکھ دیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ہنڈیا پر ڈھکن رکھ کر چکنی مٹی کے ساتھ اچھی طرح لپائی کرکے اس کا منہ بند کر دیا کہ اندر سے کوئی چیز باہر نہ نکل سکے۔

اب انہوں نے اس مٹی کی ہانڈی کو ہلکی آنچ پر رکھ دیا اور کچھ پڑھ کر ہنڈیا پر پھونک مار دی۔ تاکہ چڑیل اس میں سے نکل کر بھاگ نہ سکے۔ ہنڈیا کو آگ پر رکھنے کے کچھ ہی دیر بعد اندر سے آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ جیسے کوئی چیز ابل رہی ہو۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ہنڈیا کے اندر سے خون کے قطرے ابل ابل کر باہر گرنا شروع ہوگئے۔ حالانکہ ہنڈیا کے ڈھکن کو بہت مضبوطی کے ساتھ بند کیا گیا تھا۔ یوں وہ چڑیل جل کر بھسم ہوگئی اور عبرت ناک انجام کو پہنچی۔ گھر والوں کو یقین ہوگیا کہ ہماری جان اس چڑیل سے چھوٹ گئی ہے۔ اس عمل کے بعد مریضہ کی حالت سنبھل گئی اور دوبارہ کسی آسیب نے اس کو تنگ نہ کیا۔