احمد خلیل جازم :
جنیوا کانفرنس میں پاکستان کو 8 ارب 57 کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ تاہم اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رقم پر خوش ہونے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ یہ رقم یک مشت نہیں ملے گی۔ بلکہ تین برسوں میں ملے گی۔ پاکستانی معیشت کسی حد تک اس رقم سے سنبھل سکتی ہے۔ لیکن جس منجدھار میں اس وقت معیشت ہے۔ اس کے لیے دیگر ممالک سے میثاق معیشت کی ضرورت ہے۔ جنیوا کانفرنس سے ملنے والی رقم دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ جو رقم انٹرنیشنل مانیٹری انسٹی ٹیوشنز سے ملی گی، وہ قرض ہے۔ دوسرے جو رقم آزادانہ طور پر کسی ملک نے دی ہے وہ امداد کی صورت میں ہوگی اور وہ امداد بھی پراجیکٹس کی صورت میں ہوگی کہ پاکستان پراجیکٹس بنائے گا اور وہ ممالک یو این او یا اپنی کسی این جی او کے ذریعے یہ امدادی رقم ان پراجیکٹس پر لگائیںگے۔ اس لیے خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ آٹھ ارب ڈالر کل ہی آپ کی جیب میں ہوں گے، اس کے لیے تین سال کی مدت درکار ہوگی۔
ایشیائی ترقی بینک کے کنسلٹنٹ اور ماہر معاشیات حسنین بخاری نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ، پہلی بات یاد رکھیں کہ یہ ساری رقم امداد نہیں ہے۔ بلکہ یہ رقم دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے۔ ایک توآزادنہ طور پر کچھ ممالک نے اعلان کیا ہے اور دوسرا انٹرٹیشنل مانیٹری انسٹی ٹیوشنز نے اعلان کیا ہے۔ مثلاً ایشین ترقیاتی بینک نے اعلان کیا، ورلڈ بینک اور اسلامی بینک وغیرہ نے اعلان کیا ہے، وہ امداد نہیں ہے۔ دوسری رقم امداد ہے جیسے فرانس، جرمنی اور چند دیگر ممالک ہیں۔ یہ رقم سافٹ لون کی صورت میں پراسس کے تحت ملے گی۔ یہ نہیں ہوگا کہ کل یہ پیسہ آپ کے اکائونٹ میں آ جائے۔ یہ پیسے تین سال کی مدت میں ملیں گے۔ یہاں تک کہ جن ممالک سے امداد ملی ہے، وہ بھی پراجیکٹ کی صورت میں آپ کو تین سال کی مدت میں ملے گی۔ یعنی پاکستان پراجیکٹ بنائے گا اور یہ ممالک اپنی امداد ہوسکتاہے یونائیٹڈ نیشن، این جی اوز یا دیگر مانیٹری اداروں کے توسط سے دیں۔ تو فوری طور پر پاکستانی معیشت کو کوئی بڑا ریلیف نہیں ملنے والا۔
بلوم برگ کی ایک رپورٹ کے حوالے سے کہ پاکستان جون تک معیشت سنبھال لے گا، ان کا کہنا تھا کہ ’’اس وقت پاکستان کا بڑا مسئلہ ان ٹرم آف ڈالر ڈیفیشٹ ہے، جو بہت زیادہ ہے اگر آپ کے لون رول اوسر ہوجاتے ہیں۔ ابھی 8 ملین ڈالر ہمیں مارچ تک دینے ہیں، تو وہ ادائیگیاں اگر رول اوور ہوجاتی ہے تو معیشت کو ایک عارضی ریلیف مل سکتا ہے۔ میں نے بلوم برگ کی وہ رپورٹ دیکھی جس میں انہوں نے کسی ’کرامت‘ کا ذکر نہیں کیا جس سے معیشت سنبھل جائے۔ اس کی بنیاد نہیں بتائی گئی۔ یا تو آپ کی انڈسٹری ترقی کررہی ہو، یا پھر زراعت بڑھی ہو۔ یہاں تو دسمبر میں آپ ٹیکس کا ٹارگٹ تک پورا نہیں کرسکے۔ کیوں کہ انڈسٹری چلے گی تو ٹیکس اکھٹا ہوگا۔ ابھی دیکھیں ٹیکسٹائل ایکسپو جرمنی میں ہونے جارہا ہے، وہاں آپ کی ٹیکسٹائل انڈسٹری والوں نے اسٹال لیے اور اپنی چیزیں بھیج دیں۔ لیکن آخری لمحوں میں انہیں ویزے نہیں ملے جس کی وجہ جرمن ایمبسیڈر نے بتائی ہے کہ پاکستانی انڈسٹری اس قابل ہی نہیں کہ وہ آرڈر پورے کرسکے تو جانے کا کوئی مقصد ہی نہیں ہے۔
سعودی ڈپازٹ کے حوالے سے آ پ نے پوچھا ہے، ان کا تین بلین ڈیپازٹ تو پہلے بھی پڑا ہوا ہے۔ یعنی ہمارے پاس جو ساڑھے چار پانچ بلین ڈالر بچے ہوئے ہیں اس میں تین بلین تو وہی ہیں۔ یہ رقم اعتماد بحال رکھنے کے لیے خزانے میں رکھی گئی ہے، اسے آپ خرچ نہیں کرسکتے۔ وہ رقم آپ کے فارن ریزرو کو امپروو کرنے کے لیے رکھی گئی ہے۔ یہ دکھا کر آپ مزید قرض ضرور لے سکتے ہیں۔ یہ کہنا کہ مغرب سے امداد ملی ہے، لیکن اسلامی ممالک جو شامل تھے ان سے امداد کیوں نہیں ملی؟ تو اس پر میں کہوں گا کہ یہ ممالک کانفرنس میں تو شریک ہوئے ہیں، ان کی طرف سے کوئی اعلانات سامنے نہیں آئے۔ کیونکہ ہوسکتا ہے وہ کوئی باہمی قدم اٹھائیں۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ جو ساڑھے چار بلین کا اسلاملک ڈیویلپمنٹ بینک نے اعلان کیا ہے، اس میں ان ممالک کی شرکت ہو جیسے سعودیہ کی طرف سے اعلان نہیں ہوا، لیکن ہو سکتا ہے اس کا بنیادی ڈونر سعودیہ اور دیگر گلف ممالک ہوں۔ لیکن وہ بھی قرضہ ہوگا، امداد نہیں۔
یاد رکھیں کوئی بھی انٹرنیشنل مانیٹری انسٹوی ٹیوشن امداد نہیں دیتا۔ اگر کچھ ہوتی بھی ہیں تو ان کی مثال یوں ہے کہ اے ڈی بی کسی کو ایک بلین کا قرض دیتا ہے تو وہ ٹیکنکل اسسٹنٹ کے نام پر اس میں ایک فیصد یا دو فیصد امدادشامل کردیتا ہے، وہ قرض کے ساتھ جڑی ہوئی امداد ہوتی ہے۔ یعنی ایک بلین قرض کے ساتھ جو امداد ہوگی وہ ٹیکنیکلی قرض کے سود کے نام پر انہیں کو واپس مل جاتی ہے۔‘‘
جینوا کانفرنس سے یہ رقم کب تک پاکستان کو موصول ہوگی اور اس کے کیا مثبت اشاریے ہوں گے؟ اس حوالے سے ماہر معاشیات ڈاکٹر فرید پراچہ نے بتایا کہ ’’اس طرح کی کانفرنسوں میں جو وعدے ہوتے ہیں وہ فوری ادائیگیوں کے نہیں ہوتے۔ ایک لمبے پراسس کے ہوتے ہیں۔ وہاں جو ممالک اعلان کرتے ہیں، ان کے اپنے اداروں اور حکام سے یہ چیزیں گززنی ہوتی ہیں۔ جس طرح اسلامی ترقیاتی بینک وغیرہ نے اعلان کیا، یہ قسط وار ملتے ہیں اور ان کے ساتھ کچھ شرائط نامے بھی ہوتے ہیں، چیکنگ کا کوئی نظام رکھتے ہیں۔ اس لیے یہ سمجھ لینا کہ اس سے پاکستان کو کوئی فوری ریلیف ملے گا، اس کا بظاہر کوئی امکان نہیں ہے۔
البتہ یہ ایک اچھی پیش رفت ضرور ہے۔ یوں سمجھیں کہ ہمیں سانس لینے کا موقع مہیا ہوگیا ہے۔ ابھی اور اقدامات کی ضرورت ہے کسی میثاق معیشت کی ضرورت زیادہ ہے۔ حکومت کو شاہانہ اخراجات پر کٹ لگانے ہوں گے۔ ہمارے حکمران ساری قربانیاں عوام سے مانگتے ہیں، ابھی اگر آئی ایم ایف کی شرائط پاکستان مانتا ہے تو یاد رکھیں وہ بھی کافی سخت پیکج ہوگا۔ اس کا سارا بوجھ تو غریب آدمی پر آئے گا۔ پٹرول، بجلی سمیت ہر چیز مہنگی ہوگی۔ اب جو ڈالروں میں پٹرول آتا ہے اس پر حکمران دو تین سو لیٹر کی ضرورت پر ہزاروں لیٹر پٹرول لے رہے ہیں۔ کیا کوئی ترقی پذیر ملک یہ کرسکتا ہے؟ دنیا میں کہیں اور کوئی ایسی مثال نہیں۔ مئی تک معاملات بہت خراب ہوسکتے ہیں، البتہ جون تک امکان ہے کہ کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔
سعودی عرب نے ابھی پانچ ارب ڈالر ڈپازٹ بڑھانے کا کہا ہے اور دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر غور کرنے کا بھی کہا ہے۔ اس سے بھی بہتری کا امکان ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو بدلنا ضروری ہے۔ یہی کرپشن اور یہی اللے تللے رہے تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ پیسہ تو سعودیہ کا ہی ہوگا، البتہ ہمارے بینکوں میں پڑا ہوگا۔ ہاں وہ جو انسویسٹمنٹ کریں گے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم کوئی کمزور پہلو نہ چھوڑیں۔ ورنہ ساری ساکھ تباہ ہوجائے گی۔ ابھی تو ہمارا دنیا میں تاثر، کرپٹ لوگوں کے ہاتھ میں لگام ہونا ہے۔ ہم اپنی امپورٹ نہیں بڑھا سکتے، جس کی تین چار وجوہات ہیں۔ ہم سب کچھ رکھنے کے باوجود مقروض ہیں۔ اللہ کی تمام نعمتیں رکھنے کے باوجود مقروض کیوں ہیں؟
اس کی ایک وجہ تو مستقل پالیسویں کا نہ ہونا ہے۔ جو حکمران آتے ہیں وہ ڈنگ ٹپائو پالیسی بناتے ہیں، کوئی مستقل نہیں ہوتی۔ کوئی ایکسپورٹ، امپورٹ پالیسی نہیں ہے۔ جو آتا ہے وہ پہلے کی نفی کرکے نئی پالیسی بنا لیتا ہے۔ دوسرے ہم اپنے کسان اور صنعت کار کو کوئی مراعات دینے کوتیار نہیں ہیں۔ باہر سے قرض لے کر سود دیتے ہیں، لیکن کسان کو سبسڈی نہیں دیتے۔ چلیں نہ دیں سستے ان پٹ تو دیں۔ انہیں ٹیکس میں چھوٹ دے دیں، وہ بہت اچھا رزلٹ دے سکتا ہے۔ ہم نے اپنے منشور میں تو پانچ پرسنٹ جی ایس ٹی رکھا ہے کہ اس سے نہیں بڑھائیں گے۔ لیکن یہ سترہ فیصد سے زائد ہوگیا ہے۔ تیسری بات سود کا خاتمہ ضروری ہے، اللہ اور رسولؐ سے لڑائی کرکے آپ کبھی نہیں جیت سکتے‘‘۔