پنجاب اسمبلی میں ڈرامائی طور پر وزیر اعلی پنجاب چودھری پرویز الہی نے آدھی رات کے اجلاس میں اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا اور اگلے روز عمران خان سے ملاقات کے بعد اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس گورنر کو روانہ کر دی۔فواد چودھری نے اس کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں عبوری حکومت کے قیام کے لئے 48گھنٹے میں اپوزیشن رہنما حمزہ شہباز کو خط لکھ دیا جائے گا اور خیبر پختون خواہ اسمبلی بھی توڑ دی جائے گی۔ انہوں نے عمران خان کی طرف سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ سپیکر قومی اسمبلی بھجوائے گئے استعفے منظور کریں۔ملکی سیاست کے محرکات پہ نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ چودھری پرویز الہی خاندان کے سیاسی فیصلے اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پہ ہی ہوتے ہیں ، لہذا ان کا حالیہ فیصلہ اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
ساتھ ہی یہ بات سینوں سے نکل کر زبانوں پہ آ رہی ہے کہ ضمنی انتخابات میں ‘ پی ٹی آئی ‘ کو سات نشستیں اسی طرح جتوائی گئیں جس طرح2018کے الیکشن میں ووٹ کی طاقت سے دشمن کو شکست دی گئی تھی۔’ پی ڈی ایم’ حکومت میں ہونے کے باوجود بے بس، لاچار اور کمزوری سے دوچار نظر آ رہی ہے۔مسلم لیگ ن کی عوامی حمایت کی دعویداری والی قیادت لندن میں مقیم ہے اور حکمت عملی کے طور پر اختیار کی گئی قیادت مختلف ملکوں کے دورے کرتے ہوئے ملک کی بدترین اقتصادی حالت اور سیلاب زدگان کی امداد کے نام پر مختلف ملکوں کے دورے کر رہی ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وفاقی حکومت کے عہدیدار بھر پور طورپر عمران خان کی تشہیر میں محدود اور مصروف ہیں۔ ان کا ہر بیان عمران خان سے متعلق ہی ہوتا ہے اور یوں انہوں نے عمران خان کو موضوع بناتے ہوئے عمران خان کو ملکی سیاست کا محور بنا نے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے۔
آج ‘ پی ڈی ایم’ کے حامی پریشان ہیں کہ آخر ‘ پی ڈی ایم ‘ کا بیانیہ کیا ہے اور کیا باقی رہ گیا ہے؟کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے اتحاد کو پیپلز پارٹی کے سیاسی نقصان سے تعبیر کیا جا رہا ہے تاہم حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد سب سے زیادہ سیاسی نقصان مسلم لیگ ن کو ہی اٹھانا پڑ ا ہے۔اگر اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ ‘ پی ٹی آئی ‘ حکومت کے خاتمے سے’ پی ڈی ایم’ کو حاصل کیا ہوا؟ تو یہاں ‘ پی ڈی ایم’ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں ، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے خلاف مقدمات کے خاتمے کے علاوہ اور کوئی بات حاصل ہونے کی مد میں نظر نہیں آتی۔گزشتہ سال ‘ پی ٹی آئی ‘ حکومت کے خاتمے کے بعد جس طرح عمران خان کو سیاسی طور پر فائدے پہنچاتے ہوئے انہیں ” گنگا میں نہلا کر” ملک اور عوام کی اگلی قیادت کے طورپر سجایا اور سنوارا جا رہا ہے،اس سے واضح ہوتا ہے کہ ملک تھامنے اور چلانے والوں نے تباہ کن تجربات سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور اب وہ جنرل ضیائی، جنرل مشرف کی حکمت عملیوں کو نئے حالات و واقعات کی روشنی میں ڈارئی کلین کرتے اور اپنے مصالحہ جات کا تڑکا لگاتے ہوئے اپنی آزادانہ پرواز کا ساز گار ماحول تشکیل دے رہے ہیں۔
حالات زمانہ کے حوالے سے دانشور کہتے ہیں کہ جو ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا اور جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے۔ اسی طرح ملکی سیاست کی صورت حال بھی یہی ہے کہ سیاست کا جو منظر نامہ نظر آر ہا ہے، حالات و واقعات اور محرکات وہ نہیں ہیں جو ظاہر کئے جا رہے ہیں۔محرکات، عوامل ، اہداف پس پردہ ہیں جن سے عام لوگ تو ایک طرف ہمارے اہل بصیرت، دانشور بھی لاعلم اور بے پرواہ نظر آتے ہیں۔لگتا یہی ہے کہ قانون قدرت نے ایک بار پھر پاکستان سے علاقائی سطح پہ کوئی کام لینے کا انتخاب کیا ہے جس کے لئے اسباب کی تیاری کا مرحلہ تیزی سے جاری ہے۔
یوں ظاہری نہیں بلکہ اصل کہانی پس پردہ ہے،پاکستان کی حاکمیت اور سیاست ظاہری نہیں اصل کہانی پس پردہ ہے۔باہمی اتحاد سے وفاقی حکومت میں موجود مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ان امور پر خاموش ہیں جن امور کے بارے میں وقت کا تقاضہ ہے کہ انہیں بے نقاب کیا جائے۔’ پی ڈی ایم’ کا سیاسی مفاد اسی میں ہے کہ حکومت میں رہتے ہوئے خاموش نہ رہا جائے ،ورنہ کل حکومت سے رخصت ہونے کے بعد اپنی پابندیوں اور مجبوریوں کا ” بیانیہ” انہیں کوئی سیاسی فائدہ نہیں دے سکے گا۔وہ کون سی وجوہات ، خطرات ہیں جن کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی قیادت ملک سے باہر خاموش رہنے پر مجبور ہے ؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اس تلاش میں ہوں کہ اب ان کے پاس کون سا بیانیہ اختیار کرنے کا آپشن باقی بچا ہے۔