نمائندہ امت :
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سینئر قانون دان عبداللطیف آفریدی کے قتل نے پشاور ہائیکورٹ کی سیکورٹی پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ سینئر قانون دان کے قتل کے خلاف صوبہ بھر میں عدالتی بائیکاٹ کا آغاز ہو گیا ہے۔ مرحوم کی نماز جنازہ پشاور کے باغ ناران میں ادا کی گئی اور انہیں آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیاگیا۔ جبکہ سینئر وکیل کے قتل میں ملوث ملزم کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے واقعہ کو صوبائی حکومت اور پولیس کی ناکامی قرار دیا ہے۔
صوبائی دارالحکومت پشاور میں حساس مقامات کی سیکورٹی ہائی الرٹ کے دعوئوں کے باوجود مسلح شخص کے ہائیکورٹ میں گھس کر سینئر قانون دان کو قتل کرنے کے واقعہ نے کئی سوالات کو جنم دیدیا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ بار روم، ہائیکورٹ کے احاطے میں ہی واقع ہے۔ جہاں داخلی راستے پر باقاعدگی سے سخت سیکورٹی تعینات ہے اور لوگوں کو شناختی کارڈ دکھانے پر ہی اندر جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح بلند و بانگ دعوئوں کے باوجود مسلح شخص کا گھس کر فائرنگ کرنا سیکورٹی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ جبکہ یہ بھی سوالیہ نشان ہے کہ ایک شخص اسلحہ کے ساتھ کیسے بار روم تک پہنچا اور پھر فائرنگ کر کے اپنا ٹارگٹ بھی پورا کرلیا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سینئر قانون دان عبداللطیف آفریدی کے قتل کے خلاف 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا ہت۔ جبکہ صوبہ بھر کے وکلا نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ بھی کر دیا ہے۔ وکلا کا کہنا ہے کہ سینئر قانون دان عبداللطیف آفریدی کے قتل پر وکلا میں تشویش پائی جاتی ہے۔ واقعہ کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کرکے ذمے داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ کے پی بار کونسل کے وائس چیئرمین محمد علی جدون، پشاورہائیکورٹ بار کے صدر رحمان اللہ، جنرل سیکریٹری فاروق آفریدی، پشاوربار ایسوسی ایشن کے صدر علی زمان ایڈووکیٹ، کے پی بار کونسل کے ممبران سید مبشر شاہ، نور عالم خان، نعمان کاکا خیل، سینئر وکلا اسحاق علی قاضی، یاسر خٹک، امین الرحمان، دانیال خان چمکنی، بابر خان یوسف زئی، زاہد نعمان، انوارالحق، پیر حمیداللہ شاہ اور دیگر وکلا نے عبداللطیف آفریدی کے قتل کی شدید میں مذمت کی اور واقعہ میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
سابق صدر سپریم کورٹ بار اور سینئر قانون دان عبداللطیف آفریدی کی نماز جنازہ گزشتہ روز پشاور کے باغ ناران میں ادا کی گئی۔ مرحوم قانون دان عبداللطیف آفریدی کی نماز جنازہ میں اعلیٰ سیاسی و سماجی شخصیات، ججز، وکلا، اعلیٰ سول و پولیس افسران سمیت کثیر تعداد میں عوام نے شرکت کی۔ شرکا کی جانب سے مرحوم کی پیشہ ورانہ خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
دوسری جانب عبداللطیف آفریدی کے قتل میں ملوث ملزم کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے۔ پولیس نے ملزم عدنان آفریدی کو سخت سیکورٹی میں جوڈیشل مجسٹریٹ بدر منیر کی عدالت میں پیش کیا اور جوڈیشل مجسٹریٹ سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔ پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ملزم نے ابتدائی تفتیش میں اعتراف جرم کرلیا ہے اور اس نے قتل کی وجہ ذاتی دشمن بتائی ہے۔ مزید تفتیش کے لیے ملزم کا جسمانی ریمانڈ درکار ہے۔
مقامی عدالت نے پولیس کی استدعا منظور کرتے ہوئے ملزم کو 2 روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔ ادھر اپوزیشن جماعتوں نے عبداللطیف آفریدی کے قتل کو پولیس اور صوبائی حکومت کی ناکامی قرار دیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی خیبرپختون پروفیسر محمد ابراہیم خان نے سینئر وکیل رہنما عبداللطیف آفریدی کے قتل کی شدید میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بار روم میں وکیل رہنما کا قتل افسوسناک ہے۔
واقعہ صوبائی حکومت اور پولیس سیکورٹی کی ناکامی ہے۔ سوگوار خاندان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت وکلا سمیت کسی شہری کو بھی تحفظ فراہم نہیں کرسکی۔ بار روم کے اندر ایک سینئر وکیل کے قتل نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ قاتل کو سخت سزا دی جائے۔