نواز طاہر :
پنجاب اسمبلی کے نئے الیکشن کی تاریخ تاحال مقرر نہیں کی گئی ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی الیکشن کیلیے دباؤ بڑھانے لگی ہے۔ الیکشن وقت پر نہ ہونے کے پیشِ نظر تحریکِ انصاف نے الیکشن کی تاریخ مقرر کروانے کیلیے ہاتھ پیر مارنا شروع کر دیے ۔
تحلیل شدہ اسمبلی کے اسپیکر محمد سبطین خان نے پنجاب کے گورنر بیلغ الرحمن کو الیکشن کیلیے خط لکھ دیا ہے، جس کی آئینی و قانونی ماہرین کی رائے میں کوئی حیثیت نہیں، ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ گورنر مذکوہ خط کا جواب دیں یا نہ دیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یاد رہے کہ وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر پنجاب اسمبلی رواں ماہ کی 14 تاریخ کو تحلیل ہوگئی تھی، جسے سات روز گزر چکے ہیں اور ابھی نئے الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔ جبکہ وفاقی حکومت کی طرف سے بار بار کہا جا رہا ہے کہ عام انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے، جبکہ ابھی تک نگران وزیراعلیٰ پر بھی اتفاقِ رائے نہیں ہوسکا اور یہ فیصلہ الیکشن کمیشن نے آج کرنا ہے جو عدالت میں چیلنج کیے جانے کے اعلانات پہلے سے ہی موجود ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 224 کی ذیلی شق چار الف کے تحت جب تک نگراں وزیراعلیٰ مقرر نہیں ہوتا، تب تک موجودہ وزیراعلیٰ یہ ذمہ داریاں ادا کرتا رہے گا اور آئین میں نگراں وزیراعلیٰ کے تقرر کے لئے دستیاب مدت آج رات ختم ہو رہی ہے۔ اور اطلاعات ہیں کہ جیسے ہی الیکشن کمیشن نگراں وزیراعلیٰ کے نام کا اعلان کرے گا۔ اس کے فوری بعد ہی نگراں وزیراعلیٰ کے حلف کی تقریب کا اعلان کردیا جائے گا، تاکہ عدالت میں اس فیصلے کو چیلنج کیے جانے سے پہلے ہی نگراں وزیراعلیٰ فرائض سنبھال لے۔
اسی دوران پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے اس اعلان کہ انتخابات کی تاریخ کے حصول کیلیے متعلقہ فورمز سے رجوع کیا جائے گا، کے بعد اسپیکر محمد سبطین خان نے جمعہ کو گورنر پنجاب کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات کی تاریخ مقرر کی جائے۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ صوبائی اسمبلی آئین کے آرٹیکل 112 کی ذیلی شق ایک کے تحت 14 جنوری کوتحلیل ہوچکی ہے اور آئین کے آرٹیکل 105 کی ذیلی شق تین و آرٹیکل 224 اور 224 الف کے تحت 90 روز کے اندر الیکشن کا انعقاد لازم ہے، مگر اس ضمن میں سات روز گزر جانے کے باوجود آپ نے کوئی کردار ادا نہیں کیا، لہٰذا آپ الیکشن کی تاریخ کے تعین کی اپنی آئینی ذمے داری بلا تاخیر ادا کریں۔ اس خط کی ایک کاپی صدرِ مملکت کو بھی ارسال کی گئی ہے۔
ذرائع نے یہ خط گورنر ہاؤس پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔ تاہم یہ نہیں بتایا کہ اس پر گورنر کا ردِ عمل کیا ہے اور وہ اس کا جواب کب تک دیں گے یا الیکشن کی تاریخ کیا مقرر کریں گے۔ اس ضمن میں سیاسی رہنما و قانونی ماہر جہانگیر اشرف وینس، ذوالفقار چودھری اور فیضان ضیاء بنگش کا کہنا ہے کہ اسپیکر کی طرف سے گورنر کو لکھے گئے خط کی کوئی حیثیت نہیں۔
جہانگیر اشرف وینس ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اسپیکر اس ایوان کا کسٹوڈین ہے، جو اب موجود نہیں، اب ان کا کام صرف آئندہ اسمبلی سے حلف لینا ہے یا پھر اگر گورنر غیر موجود ہو تو وہ قائم مقام گورنر کی حیثیت سے فرائض انجام دیں، باقی سیکرٹیریل امور ہیں۔ اس لئے یہ خط ایسے ہی ہے جیسے کسی عام آدمی نے لکھا ہو۔
اس کی تائید کرتے ہوئے احمد ضیاء بنگش ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ بادی النظر میں اسپیکر نے اپنی جماعت کی نمائندگی اور اپنی پارٹی کے سربراہ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا ہے، وہ جس ایوان کے کسٹوڈین ہیں اور جن اراکین کی نمائندگی کا اختیار رکھتے ہیں ان کا اب وجود ہی نہیں رہا۔ اسپیکر تمام اراکین کا اسپیکر اور غیر جانبدار ہوتا ہے اور جس پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیکر منتخب ہوتا ہے، اسے کے ساتھ جانبداری نہیں رکھ سکتا۔ اسے صرف توجہ دلانے کا مراسلہ کہا جاسکتا ہے اور یہ مراسلہ کوئی عام شہری بھی لکھ سکتا ہے۔ آئین کے تحت گورنر نئے الیکشن کی تاریخ کا تعین کرنے کا پابند نہیں۔
البتہ اگر گورنر نے آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی ہوتی تو انہیں آئندہ الیکشن کی تاریخ دینے کا ذمہ دار قراردیاجاسکتا ہے، لیکن یہاں تو وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی از خود تحلیل ہوئی ہے اور نئے الیکشن کی تاریخ مقرر کرنا گورنر کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس لئے اس خط کی سیاسی ایکٹویٹی سے زیادہ کوئی حییثت نہیں ماسوائے اس کے کہ یہ اظہار کیا جاسکے کہ اسپیکر غیر جانبدار اسپیکر صوبائی اسمبلی نہیں بلکہ ایک جماعت کا سیاسی ورکر ہے۔
لاہور ہائیکورٹ بار کے سابق صدر ذوالفقار چودھری کا کہنا ہے کہ اسپیکر کا گورنر کے ام خط لکھنے کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی نقصان، اگر یہی خط الیکشن کمیشن کے نام لکھا گیا ہوتا تو اس پر کوئی تبصرہ بھی کیا جاسکتا تھا، اس مراسلے پر تبصرہ یہی ہے کہ یہ خط بالکل بے مقصد ہے۔ اگر گورنر نے خود اسمبلی تحلیل کی ہوتی اور الیکشن کی تاریخ نہ دی گئی ہوتی تب اس خط کی اہمیت مختلف ہوتی۔