آئی جی اسلام آباد ہائیکورٹ میں تھے ان کی موجودگی میں یہ آرڈر ہوا تھا ،فائل فوٹو
آئی جی اسلام آباد ہائیکورٹ میں تھے ان کی موجودگی میں یہ آرڈر ہوا تھا ،فائل فوٹو

فواد چوہدری کی گرفتاری ،عمران خان کیلئے سخت پیغام ؟

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی ) حکومت نے رات گئے عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کی افواہوں کی آڑ میں علی الصبح تحریک انصاف کے سرگرم ترین رہنما فواد چوہدری کو گرفتار کرکے جارحانہ جوابی حکمت عملی کا پیغام دے دیا ہے جو آگے چل کر عمران خان کی گرفتاری پر منتج ہو سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق ایسا منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔ فواد چوہدری کے خلاف سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے تھانہ کوہساراسلام آباد میں مقدمہ منگل کی شب ان کی دھمکی آمیز تقریر کے فورا” بعد  ہی درج کرکے ایف آئی آر کو سیل کردیا گیا تھا ،جس کا مقصد "ملزم” کو کسی بھی وقت بغیر بتائے گرفتار کرنا تھا۔

عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ پیشی کے حوالے سے پولیس سیکیورٹی آرڈر جاری کر دیا گیا ہے۔فائل فوٹو

 

واضح رہے کہ سیل شدہ آف آئی آر کی کاپی ملزم یا کسی وکیل کو فراہم نہیں کی جاتی بلکہ بوقت ضرورت اس پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور عام طور پر ایسی ایف آئی آر پر کاروائی التوا کا شکار رہتی ہے، تاہم فواد چوہدری کے کیس میں اس ایف آئی آر پر کارروائی چندگھنٹوں کے اندر عمل میں لائی گئی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب ڈھائی بجے کے قریب تحریک انصاف کے سرگرم کارکن اور عمران خان کے بھانجے زبیر خان نیازی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے اچانک یہ اطلاع دی گئی کہ پنجاب پولیس کسی بھی وقت عمران خان کو گرفتار کر سکتی ہے، لہذا کارکن فوری طور پر زمان پارک پہنچیں اور ایسی کسی بھی کوشش کو ناکام بنا دیں۔

اس کے بعد سوشل میڈیا پر یہ اپیل مسلسل دہرائی جاتی رہی اور تحریک انصاف کے کارکن بڑی تعداد میں عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک پہنچ گئے۔ مشتعل کارکنوں نے حکومت بالخصوص نگران وزیراعلی محسن نقوی اور پنجاب پولیس کے خلاف نعرے بازی کرکے ماحول کو گرما دیا جبکہ پارٹی رہنماؤں کے غیر رسمی اجلاس میں عمران خان کی رہائش گاہ پر مسلسل پہرے کی حکمت عملی تیار کر لی گئی۔کارکنوں کے احتجاج کے دوران جو اہم رہنما وہاں پہنچے ان میں حماد اظہر اور فواد چوہدری شامل ہیں۔ فواد چوہدری نے ایک بار پھر حکومت کے خلاف پرجوش اور دھمکی آمیز خطاب کیا اور چیلنج کیا کہ حکومت عمران خان کو گرفتار کر کے دکھائے تاہم فوری طور پر حکومت کا ہدف فواد چوہدری ہی کی گرفتاری تھا جو اداروں اور شخصیات کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کر کےمسلسل اپنی گرفتاری کا سامان پیدا کر رہے تھے۔

 

مبصرین کے مطابق فواد چوہدری کی گرفتاری نے فی الوقت پی ٹی آئی کی جارحانہ میڈیا مہم کی کمر توڑ دی ہے کیوںکہ ایسے وقت میں جب پارٹی کے دیگر رہنما خوف یا مصلحت کا کمبل اوڑھے سردی کے مزے لوٹ رہے ہیں وہاں ہر محاذ پر فواد چوہدری ہی حکومت کے خلاف جارحانہ مہم میں پیش پیش نظر آتے تھے۔قبل ازیں اس قسم کا جارحانہ رویہ شہباز گل نے اختیار کیا تھا جو جوش جذبات میں ریڈ لائن کراس کر کے "ناقابل بیان کیفیت” تک جا پہنچے ہیں۔ماضی قریب میں ایک اور پرجوش رہنما فیاض چوہان بھی سخت لب و لہجہ اختیار کرتے رہے ہیں تاہم وہ خاصے سمجھدار ہیں اور کچھ عرصہ پہلے تک ان کے جذبات اسمبلی تک محدود ہو گئے تھے، جس کے اب وہ رکن نہیں رہے۔ اسی طرح جذبات کی تلاطم خیزی کو خطرے کے نشان تک پہنچانے والے مراد سعید کچھ عرصے سے پارٹی معاملات پر مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ بوجوہ تحریک انصاف کی قیادت نے انہیں خود سے دور رکھا ہوا ہے۔ رات گئے مراد سعید اور علی امین گنڈاپور کی دھمکی آمیز اور جذباتی نوعیت کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہیں تاہم ان کے الفاظ اور جملوں سے واضح نہیں ہو رہا کہ یہ واقعی فواد چوہدری کی گرفتاری کے تناظر میں جاری کی گئی ہیں۔

 

تحریک انصاف کے ایک اور نوجوان رہنما فیصل جاوید جو اگرچہ ہر جلسے میں عمران خان کے ساتھ موجود رہتے تھے اور وزیرآباد حملے کے وقت بھی ان کے شانہ بشانہ تھے، تاہم انہوں نے کبھی جذباتیت کی حد عبور نہیں کی۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے سینئر رہنما اعجاز چوہدری ،میاں محمود الرشید اور دیگر نے خود کو جلسے جلوسوں اور قانونی معاملات تک ہی محدود رکھا ہے۔لہذا لے دے کر تحریک انصاف کے دامن میں چنگاری کو شعلہ بنانے والے فواد چوہدری جیسے ایک دو رہنما ہی باقی بچے تھے جن کی گرفتاری میڈیا کے محاذ پر تحریک انصاف کا اہم نقصان قرار دی جا سکتی ہے۔ دوسری طرف فواد چوہدری کی گرفتاری کے معاملے پر اپنی پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے جس طرح اعداد و شمار اور شواہد کے ساتھ گرفتاری کا دفاع کیا ہے اور تحریک انصاف کی حکومت کے دوران "نہال، دانیال اور طلال” کے خلاف کارروائی کا حوالہ دیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دینے کے لیے ہوم ورک بڑی حد تک مکمل کر لیا ہے تاہم ایک سیاسی شخصیت کو جس طرح ہتھکڑی لگا کر اور منہ پر کپڑا ڈال کر عدالت لے جایا گیا ہے، سیاسی اور صحافتی حلقوں میں اس سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔