نواز طاہر :
قیام پاکستان سے پہلے لاہور شہر کے جنوب سے گزرتی نہر کے شمالی کنارے پوش اور پُرسکون علاقہ زمان پارک اپنی تاریخ کے بدترین بے سکونی کے دور سے گزر رہا ہے۔ جہاں کے مرکزی راستے اورگلیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سخت چیکنگ کا اسپاٹ بن چکی ہیں۔ پارک ویران اور عمران خان کی رہائشگاہ والا علاقائی حصہ شور و غل سے مچھلی بازار بن چکا ہے۔ یہاں کے مکینوں نے ایسی بے سکونی اور بے اطمینانی اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ علاقہ مکین مضطرب اور خوف زدہ ہیں کہ کسی پل بھی یہاں بڑا ہنگامہ، پکڑ دھکڑ اور ڈنڈے سوٹے چل سکتے اور گرفتاریاں ہو سکتی ہیں۔ بعض لوگوں نے تو اس ہنگامے سے پہلے ہی یہاں سے جانا شروع کردیا ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کی اطلاعات اور پی ٹی آئی کی کال پر کارکنوں نے پارٹی چیئرمین کے گھر کے باہر ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ جہاں ایک میلے کا سا سماں ہے اور اس کھیل کے ذمہ دار کھلاڑیوں کی حاضریاں لگائی جارہی ہیں۔ یہ میلہ گرین بیلٹ پر جاری ہے۔ جہاں نعرے، گانوں اور رقص اور بریانی کے ڈبے و پانی کی بوتلیں چھیننے کے مقابلے ہو رہے ہیں۔ نمائندہ امت نے ستّر اور اسّی کی دہائی میں ایسا مقابلہ سینما گھر کے سستے ترین ٹکٹ والی کھڑکی پر ان گنت بار دیکھا ہے۔
عمران خان بنی گالہ منتقل ہونے کے بعد عملی طور پر یہ علاقہ چھوڑ چکے تھے۔ لیکن لانگ مارچ کے دوران وزیرآباد میں قافلے پر فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہونے کے بعد سے یہاںمقیم ہیں اور علاقے کی گلیاں عملی طور پر سیکورٹی اہلکاروں کی پکٹس بننے سے یرغمال ہیں۔ داخلی راستہ بند ہے۔ جبکہ ملحقہ گلیوں سے گزرنے کیلئے بھی مکینوں کو تلاشی کے عمل سے گزرنے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ گزشتہ چار روز سے موجود پی ٹی آئی کے کارکنوں نے گرین بیلٹ پر لگے پودوں کو اکھاڑ کر اسے پارکنگ اور فرشی نشست گاہ میں تبدیل کردیا ہے۔
زمان پارک کے ایک بنگلے میں کام کرنے والے بنگالی بابا شبراتی کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت بھی یہاں ایسی بے سکونی نہیں دیکھی۔ ہمیں ہر کوئی دہشت گرد سمجھنے لگا ہے اور پیدل سودا سلف لانے کی صورت میں مجھ سمیت تمام لوگوں کو چیک کروانا پڑتا ہے۔ زیادہ تر صاحب لوگوں کے ساتھ گاڑی میں سودا سلف لاتے ہیں یا پھر تین کلومیٹر سے زائد پیدل چلنا پڑتا ہے۔ عمران خان ہیرو ہوگا۔ لیکن ابھی تو یہ عذاب بن چکا ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کے عمل میں مزاحمت کیلئے آنے والے کارکنوں نے اپنے پنڈالوں میں سردی سے بچنے کیلئے جگہ جگہ الائو جلا رکھے ہیں۔ جہاں ایک جانب چائے بن رہی ہے تو دوسری طرف نہ پہنچنے والوں کی حاضریاں لگائی جارہی ہیں۔ بار بار جنریٹر بند ہونے سے لائٹ کے مسائل بھی ہیں۔ یہاں بریانی کی تقسیم میں ہنگامہ آرائی روکنے کیلیے کوئی موجود نہیں۔ یہاں لگے خیموں میں نہ صرف لاہور، سیالکوٹ سمیت مختلف شہروں کے کارکنان ہیں۔ بلکہ دوسرے صوبوں خاص کر دیر سے بھی کارکنان موجود ہیں۔
ایک کارکن مقداراللہ خان نے بتایا کہ اس کا تعلق دیر سے ہے اور وہ اپنا ’’فرض‘‘ ادا کرنے آیا ہے۔ اگر عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو ڈنڈے سوٹے کا مقابلہ ڈنڈے سوٹے سے کیا جائے گا۔ لیکن گرفتار کرکے لے جانے نہیں دیا جائے گا۔ بھلے خود گرفتار ہوجائیں۔ شاہدرہ کے رہائشی کامران نے بتایا کہ وہ گھر والوں کو بتائے بغیر آیا ہے، کہ وہ شاید یہاں آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہاں اچھی بریانی مل رہی ہے۔ چائے کی بھی کمی نہیں۔ داتا دربار میں بھی اتنا لنگر نہیں ملتا جتنا یہاں کھانے کو مل رہا ہے۔
کامران کے مطابق وہ اپنے علاقے کے پی ٹی آئی عہدیدار کے ساتھ آیا ہے۔ لیکن وہ اب یہاں نہیں اور یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ اسے گھر کیسے پہنچائے گا۔ ایک کارکن فواد نے بتایا کہ ’’ہمیں بتایا گیا کہ وہاں آپ نے بیٹھنا ہے۔ وہاں چائے پانی ملے گا۔ بریانی ملے گی۔ یہ سب کچھ مل رہا ہے۔ لیکن گھر کیسے واپس جانا ہے۔ اس کی فکر ہے۔ اگر پولیس پکڑنے آئی تو وہ اپنی جان بچانے کی کوشش کرے گا۔ یہیں پر شہر سے تعلق رکھنے والے ارتضیٰ بٹ مجمع کی توجہ کا مرکز تھا۔ ارتضیٰ بٹ کے مطابق عمران خان سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کی قیادت کو عوام کی حالت کی فکر نہیں۔
اس کا کہنا تھا کہ ’’ملک اب نیوٹرل کے حوالے کردینا چاہئے۔ میں نیوٹرل کا نام نہیں لیتا کہ نیوٹرل کون ہے۔ طاقت والوں کے پاس حکومت ہے۔ آخر سیاستدان مکالمہ کر کے عوام کی بھلائی کا میثاق کیوں نہیں کرتے؟
عمران خان کی گرفتاری روکنے کیلئے کیمپوں میں خواتین بھی موجود ہیں اور ان کا مرکزی کیمپ داخلی دروازے کے سامنے ہے۔ یہاں موجود پی ٹی آئی کی جنرل سیکریٹری سعدیہ سہیل رعنا نے بتایا کہ تنظیم کو اشیائے خورونوش فراہم کرنے کی پہلے سے طے شدہ ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ لیکن معلوم نہیں کہ کہاں کہاں سے کھانا آرہا ہے؟۔ ان کے عقب میں کیمپ میں موجود خواتین کو بریانی کھاتے ہوئے ٹشو پیپر نہ ملنے کی شکایت تھی۔
دوسری جانب اس کیمپ سے پچاس گز کے فاصلے پر عمران خان کی مختلف لیڈروں سے ملاقاتیں جاری ہیں۔ ملاقات کے بعد اچانک اتحادی جماعت عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے میڈیا سے گفتگو میں یہ کہہ کر خوف پھیلا دیا کہ عمران خان پر حملے کیلئے آصف زرداری نے غیر ملکی دہشت گردوں کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔ اس بیان پر کیمپ میں موجود افراد میں خوف اور اضطراب دیکھا گیا۔ شیخ رشید کی تقریر پر کچھ کارکنوں نے ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا اور اسے خوف پھیلانے کی سازش قرار دیا۔
ایک کارکن نیاز خان کا کہنا تھا کہ ’’ہم سوات سے آئے ہیں۔ ڈرتے ہیں نہ ڈرنے والے کو پسند کرتے ہیں۔ شیخ رشید لوگوں کو ڈرا رہا ہے۔ اب عمران خان کو کہتا ہے کہ ٹرین پر چڑھ جائے۔ یہ کل یہ بھی کہے گا کہ خان جیل چلا جائے۔ کیا جیل جانا پڑے گا؟۔ سعدیہ سہیل رانا کا کہنا ہے کہ شیخ رشید کے بیان سے کارکن خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ اس سوال کے جواب میں کہ عمران خان کو کس مقدمے میں گرفتاری کا خوف یا امکان ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف 36 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ لیکن یہاں موجود لوگ عمران خان کا ہر صورت دفاع کریں گے۔