محمد قاسم :
پولیس لائنز پشاور میں ریسیکو آپریشن مکمل کرلیا گیا ہے اور صوبہ بھر میں سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے ہیں۔ سی پی او میں مہمانوں کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
سول سیکریٹریٹ میں داخلے کیلئے بھی نئے ایس او پیز جاری کیے گئے ہیں۔ جبکہ محکمہ صحت کے دفاتر میں اجنبیوں کے داخلے پر پابندی اور غیر سرکاری گاڑیوں کے داخلے کی بھی ممانعت ہوگی۔ ادھر خودکش دھماکے میں ایک سے زائد حملہ آوروں کے موجود ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ جائے وقوعہ سے تین سر ملے ہیں۔ اس پہلو پر بھی تحقیقات کی جا رہی ہے کہ سہولت کار پولیس کے اندر تو موجود نہیں۔ اور یہ کہ حملہ آور رہائشی کوارٹر میں رہے یا باہر سے آئے۔ جبکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیے جانے کے بعد دیگر شدت پسند تنظیموں کے حوالے سے بھی انوسٹی گیشن کی جا رہی ہے۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں پشاور سمیت 10 سے زائد اضلاع کے رہائشی متاثر ہوئے ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق پشاور کی پولیس لائنز کی مسجد میں ریسیکیو آپریشن ممکل کرلیا گیا ہے۔ خودکش دھماکے کے نتیجے میں شہدا کی تعداد 93 ہو گئی ہے۔ جبکہ 212 افراد زخمی ہیں۔ جنہیں ایل آر ایچ سمیت مختلف اسپتالوں میں طبی امداد فراہم کی جارہی ہے۔ گزشتہ رات 12 بجے سے شام تک مزید 17 شہدا کے جسد خاکی اور ایک زخمی کو ملبے سے نکالا گیا۔
لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ترجمان محمد عاصم کے مطابق اسپتال میں اب تک 83 لاشیں لائی گئی ہیں۔ جبکہ 55 زخمی تاحال زیر علاج ہیں۔ شہدا میں ڈی ایس پی عرب نواز، 5 سب انسپکٹرز، مسجد کے پیش امام اور ملحقہ پولیس کوارٹر کی رہائشی خاتون بھی شامل ہیں۔ 27 شہدا کی نماز جنازہ گزشتہ روز ادا کر دی گئی۔ نماز جنازہ میں کور کمانڈر پشاور، آئی جی پولیس اور کمانڈنٹ ایف سی نے شرکت کی۔ پولیس کے دستے نے شہدا کو سلامی بھی پیش کی۔
دھماکے کے بعد پشاورسمیت صوبے کی فضا سوگوار رہی۔ نگران وزیراعلیٰ محمد اعظم خان کی جانب سے شہدا کی یاد میں صوبہ بھر میں ایک روزہ سوگ منایا گیا۔ صوبے بھر میں سرکاری سطح پر قومی پرچم سرنگوں رہے۔ پشاورکے مختلف مقامات پر شہدا کے بلند درجات کیلئے خصوصی دعائیہ تقریبات اور مساجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد دعائیں کی گئیں اور حکومت سے مساجد کی سیکورٹی سخت کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
ادھر پشاور پولیس لائنز کے اندر خودکش دھماکے کے بعد سنٹرل پولیس آفیسر (سی پی او) میں مہمانوں اور وزیٹرز پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس ہیڈ کوارٹر خیبرپختون کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبرپختونخوا (اے آئی جی) سے کم رینک کے آفیسر کے پاس مہمان، وزیٹر کے آنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ خلاف ورزی پر متعلقہ آفیسر کے خلاف محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
اس ضمن میں ڈی ایس پی ایڈمن اور سیکیورٹی کو آرڈر پر عملدرآمد کرنے اور گیٹ اسٹاف، سیکورٹی گارڈز کو ہائی الرٹ رکھنے کے احکامات بھی جاری کر دیئے گئے ہیں۔ اسی طرح صوبائی محکمہ انتظامیہ نے سول سیکریٹریٹ پشاور میں داخلے کیلئے نئے ایس او پیز پر مشتمل نیا اعلامیہ جاری کر دیا ہے۔ جس کے مطابق سیکریٹریٹ میں داخل ہونے والی تمام گاڑیوں کے انجن اور گاڑی کے نیچے حصے کی مکمل چیکنگ کی جائے گی۔ جبکہ سول سیکریٹریٹ کے اندر چیف سیکریٹری کے دفاتر کے سامنے ان کی پروٹوکول گاڑیوں کے علاوہ کسی بھی گاڑی کو کھڑا کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
سیکریٹریٹ میں آنے والے تمام وزیٹرز کی مکمل تلاشی کے علاوہ ان کا ڈیٹا بھی محفوظ کیا جائے گا۔ اعلامیہ کے مطابق سول سیکریٹریٹ کے تمام داخلی راستوں پر واک تھرو گیٹس فوری طور پر نصب کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ جبکہ محکمہ صحت کے دفاتر میں بھی غیر سرکاری گاڑیوں او ر اجنبیوں کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق پشاور پولیس لائنز بم دھماکے کے بعد سیکورٹی کی صورتحال نازک ہے۔ اس لئے محکمہ صحت کے دفاتر میں غیر سرکاری گاڑیوں اور اجنبیوں کے داخلے پر پابندی لگائی جاتی ہے۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ پشاور پولیس لائنز میں خود کش حملے کے متاثرین میں پشاور سمیت 10 سے زائد اضلاع کے رہائشی شامل ہیں۔ ایل آر ایچ کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق دھماکے میں پشاور کے زخمی اور جاں بحق ہونے والے اہلکاروں اور ملازمین کا تعلق ناصر باغ، سیٹھی ٹائون اور بڈھ بیر سے بتایا گیا ہے۔ جبکہ اس واقعہ میں پشاور کے علاوہ اپر چترال، بنوں، لکی مروت، چارسدہ، مردان، مالاکنڈ، بٹ گرام، صوابی اور کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے پولیس اہلکار اور ملازمین بھی جاں بحق اور زخمیوں میں شامل ہیں۔ ذرائع کے بقول چارسدہ کے 10 پولیس اہلکار بھی شہید ہو گئے۔ جن میں انسپکٹر دوران شاہ، اے ایس آئی رضوان اللہ، سینئر کلرک ودود شاہ، کانسٹیبل شہاب، لیاقت، نسیم شاہ، خالد جان، گل شرف اور حوالدار اشفاق، نورالحق ولد محمدی گل اور امجد شامل ہیں۔
پشاور خود کش حملے میں ایک جانب پولیس کو بڑا جانی نقصان اٹھانا پڑا تو دوسری جانب حکومتی نمائندگی کیلئے نگران کابینہ میں سے ایک بھی وزیر سامنے نہیں آیا۔ کابینہ کے 15 ارکان نے واقعہ پر چپ سادھ رکھی ہے۔ واضح رہے کہ صوبے میں 10 روز سے نگران حکومت موجود ہے۔ تاہم اس بڑے سانحے کے موقع پر حکومتی مشینری کس حد تک متحرک اور فعال ہے؟ اس واقعہ سے اس کی قلعی کھل گئی ہے۔
دوسری جانب اس سانحے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ واقعے سے کالعدم ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) کی جانب سے لاعلمی کا اظہار کیے جانے کے بعد تحقیقات میں دیگر شدت پسند تنظیموں کو بھی شامل کرلیا گیا ہے۔ اسپیشل برانچ کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ حملے میں ایک زیادہ خودکش بمبار ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ جائے وقوعہ سے تین سر ملے ہیں۔ جبکہ اس پہلو پر بھی فوکس کیا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کا سہولت کار پولیس میں تو موجود نہیں اور یہ کہ دہشت گردوں کو پولیس لائنز میں رہائش دی گئی یا وہ باہر سے آئے۔ اگر باہر سے آئو تو کس راستے سے؟ گزشتہ روز وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کیا تھا کہ خودکش بمبار رہائشی کوارٹرز میں رہا ہے اور اس حوالے تحقیقات جاری ہے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر زاویہ سے تحقیقات کی جا رہی ہے۔