احمد خلیل جازم :
گزشتہ روز اسلام آباد کے تھانہ آبپارہ میں شیخ رشید احمد نے اپنے وکیل کے توسط سے درخواست جمع کراتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’آصف علی زرداری پر عمران خان کے قتل کا خود سے کوئی الزام نہیں لگایا۔ صرف عمران خان کے بیان کا حوالہ دیا تھا۔ میرے پاس اس معاملے کے کوئی شواہد نہیں اور نہ ہی اس معاملے سے کوئی تعلق ہے‘‘۔
یہ درخواست سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوئی ہے۔ جب کہ وہ ویڈیو بھی وائرل ہے۔ جس میں شیخ رشید نے آصف علی زرداری پر عمران خان کے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’’عمران خان کی جان کو آصف علی زرداری سے خطرہ ہے اور وہ اسے قتل کرانا چاہتے ہیں۔ آصف زرداری غیر ملکی تنظیم کے ذریعے عمران خان پر دوبارہ حملہ کرنے والے ہیں۔ غیر ملکی اجرتی قاتلوں کو انگیج کیا گیا ہے کہ عمران خان کو ختم کیا جائے‘‘۔
اس بیان کے تناظر میں اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ شیخ رشید کے خلاف اس بیان پر درخواست دی گئی ہے کہ وہ یہ الزام ثابت کریں۔ شیخ رشید ذاتی حیثیت میں بدھ کی شام چار بجے تک پیش ہو کر وضاحت کریں۔ بصورت دیگر ان کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔ اس طلبی کو شیخ رشید نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئی طلبی کی درخواست کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی ہے۔
یاد رہے کہ اس الزام پر ان کے خلاف تھانہ آبپارہ میں ایک درخواست دی گئی تھی، جس پر وفاقی پولیس نے شیخ رشید احمد کوطلب کیا ہے۔
اس حوالے سے ایک انٹرویو میں شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ ’’مجھے عمران خان کے توسط سے معلوم ہوا کہ انہیں آصف علی زرداری قتل کرانا چاہتے ہیں اور میں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بھی اسی بات کا حوالہ دیا تھا۔ عمران خان کے خلاف سازش ہورہی ہے اور اسے قتل کرانا یا مائینس ون فارمولے کے تحت سیاست سے باہر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ موجودہ حکمران کو میرے خلاف اور تو کچھ نہیں ملا، چنانچہ وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔
میرے وکیل کے توسط سے دیئے گئے بیان کو وفاقی پولیس نہیں مان رہی اور مجھے ذاتی حیثیت میں طلب کرنا چاہتی ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ مجھے کسی نہ کسی طرح گرفتار کرلیا جائے۔ لال حویلی کا معاملہ جو میری ذاتی ملکیت ہے، اس میں بھی میڈیا ٹرائل کے ذریعے مجھے پھنسانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایف آئی اے اہلکاروں کو بسوں میں لاد کر لال حویلی لایا گیا۔ لیکن میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میری نشست پر بھی اب عمران خان الیکشن لڑیں گے‘‘۔
اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنیئر وکیل فدا حسین ہاشمی کا کہنا تھا کہ ’’اصولاً جب کسی کے خلاف ایسی درخواست آتی ہے تو اس کی تفتیش کے لیے عام طور پر پولیس اس شخص کو بلوا کر اس کا موقف لیتی ہے۔ نہ آنے کی صورت میں ایف آئی آر کاٹ دی جاتی ہے۔ ویسے شیخ صاحب نے اسمارٹ موو کھیلا ہے کہ انہوں نے وکیل کے توسط سے اپنا موقف بھجوا دیا ہے، جسے پولیس نے نہیں مانا۔ اگر ویڈیو میں عمران خان کا حوالہ دیئے بغیر یہ کہا گیا ہے کہ ان کے پاس ثبوت ہیں کہ آصف زرداری، عمران کو قتل کرانا چاہتے ہیں تو پھر پولیس کے لیے لازم ہے کہ وہ شیخ رشید کو بلوا کر اور ویڈیو سنا کر ان سے موقف لے گی۔ شیخ رشید نے اب ہائی کورٹ میں ہراسمنٹ کی درخواست دی ہے، تو میرے خیال میںعدالت تفتیش کے بغیر پولیس کی جورڈکشن میں کبھی مداخلت نہیں کرے گی۔ کیونکہ تفتیش کرنا پولیس کا حق ہے‘‘۔
دوسری جانب وفاقی پولیس کے ذرائع نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شیخ رشید ہمیشہ اپنے بیانات سے مکر جاتے ہیں۔ پولیس نے شیخ رشید کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے۔ لیکن وہ اپنے موقف کی وضاحت کے لیے تھانے میں حاضری دینے کو اپنی توہین خیال کررہے ہیں۔ قانون سب کے لیے برابر ہے، درخواست گزار پر انہیں اعتراض ہے، لیکن کسی پر الزام لگا کر اسے ثابت کرنے پر کیوں اعتراض نہیں کرتے۔
ویڈیو میں صاف طور پر وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ثبوت ہیں تو ثبوت تھانے میں پیش کیے جائیں۔ تاکہ اگر کوئی سازش میں ملوث ہے تو اس سے بھی تفتیش کی جائے۔ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ قانون شیخ رشید کے لیے تو الگ ہے اور سابق صدر کے لیے الگ قانون ہے۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ شیخ رشید اپنی چرب زبانی سے قانون کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ لال حویلی کا معاملہ بھی عدالت میں ہے اور عدالت کے حکم پر ہی اسے سیل کیا گیا ہے۔