محمد قاسم :
پشاور پولیس لائن میں ہونے والے بم دھماکے کیخلاف صوبائی دارالحکومت سمیت دیگر اضلاع میں پولیس اہلکار سراپا احتجاج بن گئے اور مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ پالیس اہلکاروں نے دھماکے کی جوڈیشل انکوائری اور افسران کے استعفوں کے مطالبات کیے ہیں۔
مقررین کا کہنا ہے کہ جوانوں کی شہادت رائیگاں نہیں جائے گی۔ جبکہ انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبرپختون نے کہا کہ پشاور پولیس لائنز میں خودکش دھماکے پر جوانوں کو احتجاج پر نہ اکسایا جائے اور نہ ہی لاشوں پر سیاست کی جائے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق صوبہ خیبرپختون کی تاریخ میں پہلی بار پولیس اہلکاروں نے احتجاج شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ روز پشاور پریس کلب کے باہر، نوشہرہ کے شوبرا چوک، مردان، صوابی، چارسدہ، ڈیرہ اور کوہاٹ سمیت متعدد اضلاع میں احتجاج کیا گیا۔ پشاور میں ہونے والے احتجاج میں سو سے زائد پولیس اہلکار موجود تھے۔ جن کا مطالبہ تھا کہ پولیس لائنز میں ہونے والے دھماکے کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے۔
اسی طرح صوابی، سوات اور بنوں میں بھی پولیس کے جوانوں نے پشاور دھماکے کے خلاف مظاہرے کئے۔ جبکہ شانگلہ میں پولیس فورس کے ساتھ یکجہتی کیلئے مظاہرہ کیاگیا۔ جبکہ ڈی سی لکی مروت سمیت دیگر دفاتر میں ایک روزہ سوگ میں قومی پرچم سرنگوں رہا۔
مقررین نے کہا کہ جوانوں کی شہادت رائیگاں نہیں جائے گی۔ پشاور کے علاوہ پولیس اہلکاروں نے صوابی امن چوک میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے کہا کہ ’’ہم نامعلوم ہاتھوں سے مارے جارہے ہیں۔ ہمارے بچوں کے سر سے باپ کا سایہ مت چھینو۔ پولیس کے بچوں کو یتیم مت کرو۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے دھماکے کی آزادانہ تحقیقات کی جائے۔
سوات میں بھی تاریخ میں پہلی مرتبہ پولیس جوانوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاجی مظاہرہ کیا اور دہشت گردی کے خلاف اور امن کے حق میں نعر ے لگائے۔ مظاہرے کی قیادت سواتی قوم ایسوسی ایشن کے صدر مفتی موحد اللہ، سپین خان او ر حضرت علی کر رہے تھے۔ جبکہ مظاہرین نے نشاط چوک سے سوات پریس کلب تک ریلی نکالی۔
گزشتہ روز بنوں پولیس کے درجنوں اہلکاروں نے بھی احتجاجی جلوس نکالا۔ مظاہرین نے احتجاجی پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے۔ مظاہرے میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی رہنما تیمور باز خان بھی شریک تھے۔ پولیس جوانو ں کا احتجاجی جلوس امن کے نعرے لگاتا ہوا مختلف بازاروں سے ہوکر بنوں پریس کلب پہنچا۔
جلوس کی اطلاع ملتے ہی ڈی آئی جی بنوں اور ڈی پی او بنوں کی ہدایت پر ایس ڈی پی او ہیڈ کوارٹر عمران اسلم اور ڈی ایس پی یاسین کمال مروت کی قیادت میں پولیس نفری موقع پر پہنچ گئی۔ جبکہ شانگلہ کے صدر مقام الپوری میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے اور پولیس کے ساتھ اظہار یکجہتی میں مختلف سیاسی، سماجی اور دیگر حلقوں کی جانب سے بھر پور شرکت کی گئی۔
احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ سب کو مل کر دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنا ہو گا۔ ایک روزہ سوگ کے سلسلے میں گزشتہ روز ڈپٹی کمشنر لکی مروت کے دفتر سمیت تمام سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہا۔ جبکہ بار ایسوسی ایشن تخت بھائی کے زیر اہتمام سانحہ پشاور پولیس لائن مسجد کے دلخراش واقعہ کے خلاف مالاکنڈ روڈ پر امن ریلی نکالی گئی اور شہدا کے ورثا کو اس عظیم صدمے کو برداشت کرنے کیلئے خصوصی دعائیں کی گئیں۔
مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ جن پر ’ہم امن چاہتے ہیں‘۔ ’ہم امن کے طلب گار ہیں‘ کے نعرے درج تھے۔ ریلی کی قیادت بار ایسوسی ایشن تخت بھائی کے صدر ندیم شاہ ایڈووکیٹ، جنرل سیکریٹری حق نواز خان ایڈووکیٹ، ملگر ی وکیلان تحصیل تخت بھائی کے صدر ملک سیف اللہ ایڈووکیٹ اور دیگر وکلا کر رہے تھے۔ مقررین نے کہا کہ اس دلخراش واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
مقررین نے پشاور پولیس لائن کی مسجد میں خودکش دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ جبکہ دوسری جانب آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری نے کہا ہے کہ پشاور پولیس لائنز خودکش دھماکے پر پولیس جوانوں کو احتجاج پر نہ اکسایا جائے اور نہ لاشوں پر سیاست کی جائے۔
پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئی جی نے کہا کہ پولیس لائنز دھماکا ڈرون نہیں بلکہ خودکش حملہ تھا۔ جوانوں کو گمراہ کرکے سڑکوں پر نکالنے کو برداشت نہیں کریں گے۔ جنازوں کی تدفین سے فارغ نہیں ہوئے کہ نیا طوفان کھڑا کر دیا گیا۔ ہم غم میں ہیں۔ لہٰذا افواہوں سے ہمارے دکھ میں مزید اضافہ نہ کیا جائے۔ جوانوں کو سڑکوں پر لانا کسی صورت قبول نہیں۔ ایک ایک شہید کا بدلہ لیں گے۔
معظم جاہ انصاری نے دعویٰ کیا کہ خودکش حملہ آور کی شناخت ہوگئی ہے اور اب دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے قریب ہیں۔ دہشت گرد اکیلا نہیں تھا۔ بلکہ پورا نیٹ ورک تھا۔ خود کش حملہ آور کو ہدف دیا گیا جو 12 بجکر 36 منٹ پر پولیس لائنز میں داخل ہوا۔ خودکش حملہ آور کا پتہ لگا لیا ہے اور اس کا چہرہ بھی پتا چل گیا ہے۔ خودکش حملہ آور پولیس یونیفارم میں موٹر سائیکل پر آیا۔ جس نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا اور موٹر سائیکل پر انجن اور چیسز نمبر جعلی تھا۔ اس نے پولیس لائنز پہنچ کر حوالدار سے پوچھا مسجد کہاں ہے۔ دھماکے کی سی سی ٹی وی فوٹیج آگئی ہے۔
خیبر روڈ سے فوٹیج میں خودکش حملہ آور کا پتہ چلا جس نے ماسک پہنا ہوا تھا اور جائے وقوع سے خودکش حملہ آور کا ملنے والا سر اور سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آنے والا حملہ آور ایک ہی ہے۔ معظم جاہ انصاری نے بتایا کہ ڈرون حملے کے بارے میں افواہ پھیلائی گئی۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔
آئی ڈی لگانے کے شواہد نہیں ملے اور جائے وقوعہ پر کوئی گڑھا نہیں۔ جبکہ بم ڈسپوزل یونٹ کی رپورٹ میں دھماکا خود کش ہے۔ دھماکے میں ٹی این ٹی بارود استعمال کیا گیا۔ بلڈنگز کو گرانے والا بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ زیادہ اموات چھت گرنے سے ہوئیں۔ 50 فٹ کا ہال تھا۔ جس کے پلرز نہیں تھے۔ جس کے باعث چھت گری۔ مسجد 50 سال پہلے بنی۔ جبکہ مسجد کا کمرہ مکمل بند تھا اور پرانا ہال تھا۔ انہوں نے بتایا کہ 5 سے 10 ہزار ٹیلی فونز کی جیو فینسنگ کر رہے ہیں۔