محمد علی :
چین سے براہ راست جنگ کی امریکی منصوبہ بندی کا پردہ چاک ہوگیا ہے۔ پراکسی وار کے بعد عملی اور فیصلہ کن لڑائی کی تیاری ایک دہائی سے ہو رہی ہے۔ جس میں یہ ڈیزائن کیا گیا ہے کہ چین کو تائیوان سے ضرب لگائے جائے گی۔ کیونکہ یہ اس کی دُکھتی رگ ہے۔ امریکی تھنک ٹینکس اب تک تائیوان پر چین کی چڑھائی کے متعدد تخمینے لگا چکے ہیں۔
ایک سابقہ امریکی اندازے کے مطابق چین 2022ء سے 2049ء کے درمیان تائیوان پر فوج کشی کے قابل ہوجائے گا۔ جبکہ سی این این کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین 2026ء میں تائیوان میں اپنی فوجیں اتار دے گا۔ جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوگی اور یہ ایک خونیں سال ہوگا۔ مذکورہ رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ امریکا اسی تاک میں بیٹھا ہے کہ چین تائیوان پر حملہ کرے۔ تاکہ اسے جنگ میں کودنے کا موقع مل جائے۔ یوں دونوں ممالک کے درمیان عملی طور پر جنگ چھڑ جائے گی۔ جس میں امریکی اور چینی شہریوں کے علاوہ تائیوانی اور جاپانیوں کی ہلاکتوں کا بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اس ضمن میں امریکی فوج نے یو ایس ایئر موبیلٹی کمانڈ (اے ایم سی) کو 2013ء سے ہی ہائی الرٹ پر رکھا ہوا ہے۔ تاہم چین سے جنگ کی خفیہ عسکری یادداشت لیک ہونے سے واشنگٹن میں کھلبلی مچ گئی ہے۔
امریکا کیلیے مذکورہ یادداشت یا میمو کا سامنے آجانا انتہائی پریشان کن ہے کہ اس کی جنگی حکمت عملی کا راز فاش ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون نے میمو سے فوری طور پر اظہار لاتعلقی کر دیا ہے۔ امریکہ کی بروکنگز انسٹی ٹیوشن آف ریسرچ گروپ میں فارن پالیسی کے ڈائریکٹر ریسرچ مائیکل او ہینلون نے میمو افشا ہونے کو انتہائی خطرناک قرار دیا اور کہا ہے کہ اس سے امریکہ کے ملٹری ڈیزائنز متاثر ہوں گے۔ ڈپارٹمنٹ آف ڈیفنس کی جانب سے تحقیقات ہونی چاہیے۔
واضح رہے کہ امریکی فضائیہ کے ایک جنرل مائیکل منیہن کی جانب سے 2025ء میں چین کے ساتھ جنگ کی پیشن گوئی کرنے والا یہ میمو امریکا کے دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان تعلقات کو دیکھنے کے انداز میں سویلین اور فوجی قیادت کے درمیان بڑھتی ہوئی تفریق ظاہر کرتا ہے۔
میمو میں جنرل مائیکل منیہن نے ایک اہم بیان کے ساتھ آغاز اس طرح کیا۔ ’’میری خواہش ہے کہ میں غلط ہوں۔ لیکن میری چھٹی حس مجھے بتاتی ہے کہ 2025ء میں چین کے ساتھ ہماری لڑائی ہو گی‘‘۔ منیہن، ایئر فورس کی ایئر موبلٹی کمانڈ کے انچارج ہیں۔ جو لاجسٹکس پر مرکوز 5 ہزار افراد پر مشتمل یونٹ ہے۔
وہ امریکا اور چین کے درمیان جنگ کی اپنی پیش گوئی کے حوالے سے میمو میں لکھتے ہیں کہ ’’امریکا اور تائیوان میں ہونے والے آئندہ انتخابات، بیجنگ کو اس بات کا ایک موقع فراہم کریں گے کہ وہ خود مختار جزیرے کو اپنے ساتھ دوبارہ ملانے کی کوشش کرے۔ جبکہ چین طویل عرصے سے دعویٰ کرتا رہا ہے کہ تائیوان چینی سرزمین کا حصہ ہے یا اسی کا ایک صوبہ ہے‘‘۔
منیہن ایک سی ون تھرٹی کے ایک سابق پائلٹ ہیں، اور انہوں نے امریکی فوج میں دیگر اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، جن میں ستمبر 2019ء سے اگست 2021ء تک یو ایس انڈو پیسفک کمانڈ کے ڈپٹی کمانڈرکا عہدہ بھی شامل ہے، اس لیے وہ چینی فوج کے بارے میں گہری سمجھ رکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے گزشتہ ماہ نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ امریکا نے تائیوان کے خلاف چین کے بڑھتے ہوئے جارحانہ رویے کو نوٹ کیا ہے۔ لیکن انہوں نے قریبی مدت کے حملے کے امکان کو زیادہ اہم طور پر بیان نہیں کیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’ہمیں یقین ہے کہ وہ ایک نیا معمول قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن حملہ (تائیوان پر چین کی چڑھائی) کب ہوگا، اس پر حتمی بات نہیں کی جاسکتی‘۔ اسی طرح گزشتہ برس امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے بھی چین سے جنگ کا اشاریہ دیا تھا۔
ادھر پینٹاگون کے پریس سیکریٹری ایئر فورس بریگیڈیئر جنرل پیٹرک رائڈر نے جنرل مینہن کے میمو سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تبصرے چین کے بارے میں محکمے کے نقطہ نظر کی نمائندگی نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ قومی دفاعی حکمت عملی واضح کرتی ہے کہ چین محکمہ دفاع کے لیے ایک چیلنج ہے اور ہماری توجہ ایک پُر امن، آزاد اور کھلے انڈو پیسیفک کو برقرار رکھنے کے لیے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر مرکوز ہے۔ میمو پر چین کا ردعمل بھی معنی خیز ہے۔
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے کہا ہے کہ ’’تائیوان کے معاملے کو حل کرنا چینیوں کا معاملہ ہے۔ آبنائے تائیوان میں کشیدگی کے نئے دور کی اصل وجہ تائیوانی عہدہ داروں کی جانب سے تائیوان کی آزادی کے لیے امریکی حمایت حاصل کرنے کا مسلسل عمل اور امریکا میں کچھ لوگوں کی جانب سے چین پر قابو پانے کے لیے تائیوان کو استعمال کرنے کا ایجنڈا ہے‘‘۔