نامور کالم نویس، منفرد تجزیہ کار، صحافی و دانش ور اور مقبول اینکر پرسن وسعت اللہ خان کی شخصیت کا احاطہ اگر مختصر ترین الفاظ میں کیا جائے تو وہ جملہ ہوگا ’’اپنی شرائط پر زیست کرنے والا انسان‘‘۔ رحیم یار خان کے ایک متوسط گھرانے میں جنم لینے والا خداداد صلاحیتوں کا مالک تو تھا ہی۔ ادب دوست والد نے اسے مطالعے کی چاٹ لگائی تو فہمیدگی کو چار چاند لگ گئے۔ وسعت اللہ خان دورِ حاضر کے ان چنیدہ لکھاریوں میں شامل ہیں۔ جنہیں خواص کے ساتھ ساتھ عوامی حلقوں میں بھی پذیرائی حاصل ہے۔ ان کے کالموں میں تاریخ اور عالمی و مقامی سیاست کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل پر بھی عام فہم اور دل نشین انداز میں روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اس پر ان کی طنازی کا تڑکا۔ محض زبان و بیاں کی شیرینی سے رغبت رکھنے والوں کو بھی گرویدہ بنائے رکھتا ہے۔ گزشتہ دنوں ’’امت‘‘ نے وسعت اللہ خان کے ساتھ ایک طویل نشست رکھی۔ یہ بات چیت انٹرویو کی شکل میں نذرِ قارئین ہے۔
"کالم پر تعریف اور گالی دونوں سننے کو ملتی ہے” وسعت اللہ خان
ملاقات :سجاد عباسی
س: کالج میں کیسے اساتذہ ملے؟ ماحول کیسا تھا؟
ج: کالج میں بھی بہت اچھے اساتذہ ملے۔ حوصلہ افزائی کرنے والے۔ تقریری مقابلے کے لیے اور دیگر مختلف غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے طلبہ کو groom کرتے تھے۔ ہفتہ طلبہ، بزم ادب، بین الاضلاعی مقابلے وغیرہ عام ہوتے تھے اس زمانے میں۔ کوئز شوز وغیرہ کی روایت تھی۔ آج کل کی نسل کو پتہ نہیں اس کا ادراک ہے یا نہیں۔ یا ان کے اپنے کچھ سلسلے ہوں گے۔ تو ان ساری چیزوں نے ظاہر ہے تربیت میں بڑا حصہ ڈالا۔ پھر یونیورسٹی میں جب میں آیا داخلے کے لیے تو مجھے سب سے پہلا اسٹال جو ملا وہ جمعیت کا تھا۔ انہوں نے مجھے داخلہ فارم دیا اور ساتھ اپنا لٹریچر وغیرہ بھی۔ ایک اسٹوڈنٹ کو ساتھ کر دیا۔ جس نے مجھے گائیڈ کیا کہ فارم اس طرح بھرا جاتا ہے، وغیرہ۔ تو میں جمعیت میں چلا گیا۔ اس کا کوئی نظریاتی سبب بھی نہیں تھا۔ پھر میں پورے یونیورسٹی دور میں ان کے ساتھ رہا اور بڑا فعال رہا۔ ہمارے ناظم تھے اس زمانے میں محی الدین صاحب اور ان کے بعد سیف الدین۔ مگر یہ بھی تھا کہ میرا لبرل اور سوشلسٹ طلبہ کے ساتھ بھی برابر کا ہی اٹھنا بیٹھنا تھا اور اس پر جمعیت کے حلقوں نے کبھی اعتراض بھی نہیں کیا۔ تو اس زمانے کا کلچر یہ تھا۔ پھر یہ بھی کلچر تھا کہ کبھی کبھار تشدد (Violence) ہو جاتا تھا۔ مار کٹائی ہوتی تھی۔ ڈنڈے چل جاتے تھے۔ ظاہر ہے جوان خون تھا۔ تب تک جدید اسلحہ نہیں استعمال ہوتا تھا۔ اگرچہ ہمارے زمانے میں آگیا تھا۔ اچھا، اس دور میں جو حریف طلبہ ہوتے تھے۔ ان کے درمیان بھی ایک غیر تحریر شدہ پروٹوکول ہوا کرتا تھا۔ مثلاً کیمپس کی لڑائی گھر تک نہیں جائے گی۔ اور ساڑھے تین بجے سہ پہر لڑائی ختم۔ اس کے بعد کینٹین میں ساتھ بیٹھے ہیں۔ کھانا کھا رہے ہیں۔ گپ لگا رہے ہیں۔ کل پھر ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔ پھر یہ بھی ہوتا تھا کہ جیسے ہی اطلاع ملتی کہ کل فلاں تنظیم دوسری تنظیم کے لڑکوں کو کوٹنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ تو ہماری دوستیاں ایک دوسرے سے ہوتی تھیں۔ تو ہم ایک دوسرے کو بتا دیا کرتے خاموشی سے کہ کل کا یہ پروگرام ہے۔ تم لوگ ذرا ’’چھپر‘‘ ہو جانا۔ تو وہ سائیڈ پر ہو جاتے۔ اسی طرح دوسری طرف والے ہمیں بتا دیا کرتے۔ یہ ساری چیزیں مخالفت کے باوجود ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔ ایسا نہیں تھا کہ کوئی ذاتی یا جانی دشمنی ہے۔ آج کل تو تمیز مٹ گئی ہے ناں کہ تو اگر میرا سیاسی دشمن ہے تو ایک طرح سے جانی دشمن بھی ہے۔ تو یہ Traditions میں نے آخری بار دیکھی ہیں۔ اس کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوتا چلا گیا۔ اس لحاظ سے میں خود کو بہت خوش قسمت تصور کرتا ہوں۔
س: آپ کی تحریریں طنز سے بھرپور اور کاٹ دار ہوتی ہیں۔ آپ کو ان کا فیڈ بیک کس طرح کا ملتا ہے۔ جو زد میں آتا ہے وہ مشتعل ہوتا ہے یا کچھ لوگ حظ بھی اٹھاتے ہیں۔
ج: ہمیشہ مجھے مکس یعنی ملا جلا فیڈ بیک ملا۔ تعریف بھی ہوتی ہے۔ گالی بھی دی جاتی ہے۔ اچھا، مزے کی بات یہ ہے کہ میرے کالم جو طالبان کے ترجمان میگزین ہیں، وہ بھی اٹھا لیتے ہیں۔ اور جو بائیں بازو کے ہیں وہ بھی چھاپ دیتے ہیں۔ یہ سمجھ نہیں آتا کہ بھائی یہ دو انتہائوں پر ہو کیا رہا ہے۔ پھر جب تجزیہ کیا تو یہ سمجھ آیا کہ اگر آپ کے ’’دشمن‘‘ بدل رہے ہیں۔ یعنی مثال کے طور پر آپ کو میرا آج کا کالم بہت پسند آیا اور کل والے کالم پر آپ نے کہا کہ یار یہ ٹھیک نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے میں ٹھیک جارہا ہوں۔ لیکن اگر آپ مستقل میری تعریف کریں گے تو اس کا مطلب ہے کہیں نہ کہیں گڑبڑ ہے۔ یا مستقل اگر آپ میری مخالفت کریں گے تو اس کا مطلب ہو گا شاید یٰں کسی ایک سائیڈ پر ہوں، تبھی ایسا ہو رہا ہے۔ لیکن اگر میں غیر جانبداری برقرار رکھتا ہوں۔ جو پیشہ ورانہ صحافت کا تقاضا ہے۔ ظاہر ہے ہر انسان کی ایک آئیڈیالوجی ہوتی ہے۔ میری بھی کوئی نہ کوئی ہوگی۔ اس کو اگر میں ایک طرف رکھ کر صرف سچائی کی تلاش پر فوکس کروں۔ مکمل سچائی تو نہیں ملے گی۔ لیکن کسی حد تک جو بھی ملے۔ وہ کیا ہے؟ آج کل چونکہ اکثر کالم نگار اور مضمون نگار یا تو کھلم کھلا کسی کے ساتھ منسلک (Affiliated) ہیں یا پھر پارٹی بن گئے ہیں یا اپنی خواہشات کو خبر یا تجزیئے میں مکس کر دیتے ہیں۔ تو اس وجہ سے شاید قاری ایک خاص وقت کے بعد انہیں پہچان لیتا ہے۔ اچھا، ہمارا یہ منصب ہے ہی نہیں۔ ایک صحافی کے طور پر ہمارا مطلب یہ ہے کہ ٹھیک ہے میرا نقطہ نظر ذاتی کچھ بھی ہو۔ مگر اس کے لیے میں حقائق کو ادھر ادھر نہیں کروں گا۔ یعنی میرا جو ریڈر ہے اس کو میں حقائق کی بنیاد پر ایسا مٹیریل دوں۔ جس کی بنیاد پر وہ ایک (Informed Opinion) بنا سکے، مسٹر ایکس، وائی یا زیڈ کے بارے میں۔ تو اس طرح میرا مقصد اور میرا فرض مکمل ہوتا ہے۔ لیکن اگر میں اسے مزید کنفیوژ کر رہا ہوں اور اس ابہام میں اس پر اپنی بات تھوپ کر اسے منوانے پر مجبور کرنے کی کوشش کروں تو یہ ایک خیانت ہے۔ جو زیادہ دیر چلتی بھی نہیں ہے۔ بندہ Expose ہو جاتا ہے۔
س: بی بی سی کے ساتھ آپ کا کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا۔ وہاں آپ کی انٹری کیسے ہوئی۔ پھر جب آپ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کا موازنہ کرتے ہیں تو ہم کہاں کھڑے نظر آتے ہیں؟
ج: دیکھیں، جہاں تک موازنے کی بات ہے تو یہ موازنہ کرنا ہی زیادتی ہے۔ اس لیے کہ پیرامیٹرز ہی الگ الگ ہیں کہ کھجور اور انناس میں سے کون سا بہتر ہے تو اس کا جواب کیا ہو گا۔ کچھ بھی نہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا کے بارے میں جو ایک تاثر ہے کہ یہ غیر جانبدار ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہر ادارے کا ایک خاص زاویہ (Angle) ہوتا ہے۔ جسے پروموٹ کیا جاتا ہے۔ مگر کئی آرگنائزیشن کے فریم ورک میں ایک ادارتی پالیسی اور آزادی ہوتی ہے۔ وہاں یہ نہیں ہوتا کہ آپ یہ اور یہ نہیں کر سکتے۔ مداخلت ہوتی ہے۔ مگر بہت ہی مخصوص اور بالواسطہ انداز میں۔ روزانہ کی بنیاد پر بالکل نہیں۔ کام کرنے کی آزادی (Working liberty) ہوتی ہے۔ میں یہ بات بی بی سی کی کر رہا ہوں۔ الجزیرہ میں کبھی گیا تو نہیں۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ شاید وہاں بھی ایسا ہی ہو گا۔ کیونکہ ان کا آدھے سے زیادہ اسٹاف بی بی سی اور چینل فور وغیرہ سے گیا ہوا ہے اور وہاں کا تربیت یافتہ ہے۔ تو ظاہر ہے کسی آرگنائزیشن کا Cultural Impact تو ہوتا ہے۔ باقی اگر میں یہ بات کروں کہ فوکس نیوز بھی ایسا ہی ہے۔ سی این این بھی ایسا ہی ہوگا۔ سی این بی سی اور یورپین چینل بھی ایسے ہی ہیں تو ایسا ہے نہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ وہ بھی ہم جیسے ہی ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں
تم بھی ہم جیسے ہی نکلے
اب تک کہاں چھپے تھے بھائی
اچھا، ہمارے جو پاکستانی چینل ہیں۔ انہوں نے شروع شروع میں بھارتی چینلز کی بہت نقل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ظاہر ہے کہ ان کا مزاج الگ ہے۔ ایشوز اور سوچ کا انداز الگ ہے۔ تو وہ جو مصالحہ تھا وہ پاکستان میں چلا نہیں تو انہوں نے پھر اپنے حساب سے چیزیں کیں۔ لیکن مجھے یہاں جو ٹی وی چینلز ہیں ان میں سے لگتا ہے دو تین ہی ایسے ہیں۔ جنہیں چینلز کی تعریف میں گردانا جا سکتا ہے۔ اکثریت یہاں Visual FM کی ہے اور یہاں تخلیق یعنی Creativity کو پسند نہیں کیا جاتا۔ البتہ جو کری ایٹیویٹی ریٹنگ لانے کا سبب بنے۔ اسے ضرور پسند کیا جاتا ہے۔ مگر آؤٹ آف دی وے جاکر کوئی تجربہ کرنے یا رسک لینے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی اور کوشش یہ کی جاتی ہے کہ بس مفت کا سافٹ ویئر جتنا مل جائے۔ اس کو استعمال کرو۔ مثلاً تحقیقاتی رپورٹنگ کرائی جائے تو اس پر پیسہ اور وسائل تو خرچ ہوں گے۔ رپورٹر کے ورکنگ آورز بڑھ جاتے ہیں۔ آپ کو اسے چھٹی بھی دینا پڑ جاتی ہے۔ سورسز بھی Cultivate کرنا پڑتے ہیں۔ تو یہ ایک بڑا جھنجھٹ ہے۔ مگر اس کے نتیجے میں بہت بڑی خبر بھی آتی ہے۔ پاکستانی اخبارات میں ایک زمانے تک ایسا کسی نہ کسی سطح پر ہوتا تھا۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اب مالک کا مطمع نظر چونکہ پیسہ کمانا ہے تو انویسٹی گیٹو رپورٹنگ میں ایک تو رسک بھی بہت ہے۔ اب آپ تو کسی کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تو سب کو خوش بھی کرنا چاہتے ہیں۔ چاہے وہ کوئی ادارہ ہو۔ شخصیت ہو یا جماعت۔ بس ناراضگی نہ ہو۔ وجہ یہ ہے کہ بہت سارے چینلز خالص صحافتی روح کی بنیاد پر قائم نہیں کیے گئے۔ وہ بنیادی طور پر ڈھال ہیں اصل بزنس کی کہ سارے تیر اس ڈھال پر لگیں اور کاروبار محفوظ رہے۔ تو وہاں تو یہ سمجھوتہ ہی ہو سکتا ہے صحافت نہیں ہو سکتی۔ تو انویسٹی گیٹو جرنلزم کیسے ہوگی۔ اور پھر آئیڈیل صورت حال تو یہ ہے کہ میں اگر مالک ہوں اور میں ہزار روپے لگا رہا ہوں تو میں چاہوں گا کہ اس ہزار روپے کی سرمایہ کاری سے دس ہزار کا منافع ہو۔ بھلا کس کا دل نہیں چاہے گا۔ اس کا طریقہ ایک تو یہ ہے کہ اگر آپ دس ہزار روپے کمانا چاہتے ہیں تو ڈھائی ہزار روپے معیاری سافٹ ویئر کی تیاری پر بھی لگائیں۔ (جاری ہے)