امت رپورٹ :
سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف طویل علالت کے بعد دبئی میں انتقال کر گئے۔ وہ چار برس سے زائد عرصے سے ایک منفرد اور لاعلاج بیماری املائلوئیڈوسس Amyloidosis میں مبتلا تھے۔ تاہم ایک برس بعد دو ہزار انیس میں جاکر ان کے جان لیوا مرض کی تشخیص ہوئی تھی۔ پچھلے ایک سال سے ان کا مرض اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا۔ اس کی تصدیق دس جون دو ہزار بائیس کو ان کے آفیشل ٹیوٹر اکائونٹ پر اہل خانہ کی جانب سے کیے جانے والے ٹوئٹ سے بھی ہوتی ہے۔ جس میں کہا گیا تھا کہ ’’اپنی بیماری کی پیچیدگیوں کی وجہ سے مشرف ایک مشکل مرحلے سے گزر رہے ہیں جہاں صحت یابی ممکن نہیں۔ ان کے اعضا خراب ہو رہے ہیں۔ ان کی روزمرہ زندگی میں آسانی کے لیے دعا کریں‘‘۔
دو ہزار بیس میں دبئی میں مشرف سے ملاقات کرنے والے ان کے ایک دیرینہ دوست نے ’’امت‘‘ کو بتایا تھا کہ بیماری کے سبب مشرف اس قدر لاغر ہو چکے ہیں کہ پانی کا گلاس تک اٹھانے سے قاصر ہیں اور انہیں بولنے میں بھی دقت ہوتی ہے۔
برطانیہ کے نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے مطابق املائلوئیڈوسس ایک ایسی کمیاب سنگین بیماری ہے۔ جو جسم کے تمام اعضا اور ٹشوز میں املائلوئیڈ نامی مہلک پروٹین کی تشکیل کرتی ہے۔ اس مہلک پروٹین کے ذخائر دل، دماغ، گردے، تلی، پھیپھڑوں اور جسم کے دیگر حصوں میں جمع ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جسمانی اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
مشرف کے پھیپھڑوں، ہڈیوں، دل اور گردے سمیت دیگر اعضا پر بھی یہ بیماری بری طرح اثرانداز ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بیماری تشخیص ہونے کے دوسرے برس سے ہی ان کا وزن غیر معمولی طور پر گرنا شروع ہو گیا تھا۔ ان کی جلد ہڈیوں کو چھوڑ رہی تھی۔ انہیں چلنے، پھرنے اور بولنے میں بھی مشکل کا سامنا تھا۔ سانس لینے میں دشواری ہوتی تھی۔ مشرف کے علاج کے لیے امریکی ڈاکٹروں سے بھی رجوع کرنا پڑا تھا۔ تاہم ان کا مستقل علاج دبئی میں ہی واقع اسپتال میں ہوتا رہا۔ انہیں انجکشن لگائے جاتے تھے۔ جو عموماً ریڑھ کی ہڈی کے گودے میں لگتے ہیں۔ کئی ادویات بھی تجویز کی گئی تھیں۔ کبھی انہیں دبئی میں واقع رہائش گاہ منتقل کر دیا جاتا اور حالت بگڑنے پر اسپتال میں داخل کر دیا جاتا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ دبئی کے شاہی خاندان نے ان کے لیے اسپتال کا ایک خاص یونٹ وقف کر رکھا تھا۔
طبی ماہرین کے مطابق املائلوئیڈوسس کی تشخیص ایک مشکل کام ہے۔ اس کے لیے ڈاکٹر متاثرہ حصے سے بایپسی کے ذریعے ٹشو کا ایک چھوٹا سا نمونہ لیتے ہیں۔ بعدازاں علامتوں کی مناسبت سے ادویات تجویز کی جاتی ہیں۔ کیونکہ فی الحال املائلوئیڈوسس کا کوئی علاج دستیاب نہیں۔ یہ مرض دنیا کے گنتی کے لوگوں کو لاحق ہے۔ یاد رہے کہ پرویز مشرف کو 2016ء میں مفرور قرار دیا گیا تھا۔ جس کے بعد سے وہ کبھی پاکستان نہیں آئے۔ انہیں آئین توڑنے پر سنگین غداری کیس میں تین مرتبہ سزائے موت کا حکم سنایا گیا جو بعد ازاں کالعدم ہوگیا۔
سوشل میڈیا پر صارفین نے جنرل مشرف کی موت پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اکثر صارفین پرویز مشرف پر سخت تنقید کرتے دکھائی دیئے۔ جبکہ کچھ نے ان کی تعریف کی۔ اتوار کو ٹوئٹر پر پرویز مشرف مخالف ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتا رہا۔ بعض صارفین نے مطالبہ کیا کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد کیا جائے۔ ہانیہ احمد نے کہا کہ ’’آخرکار مشرف اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ یہی زندگی ہے۔ اب وہ لوگوں سے کی جانے والی اپنی تمام ناانصافیوں اور ظلم کا بارگاہ الہیٰ میں حساب دیں گے‘‘۔
پاکستانی پھپھو نامی اکاؤنٹ سے ایک ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ’’مشرف نے اپنے غیر قانونی اقتدار کو بچانے کیلئے پاکستان کا آئین توڑا، ملک کو امریکی جنگ میں گھسیٹا، اس کے نتیجے میں 80 ہزار پاکستانی شہید ہوئے اور معیشت سمیت دنیا میں ہمارا امیج تباہ ہوا‘‘۔ احمد خان فواد نے لکھا کہ ’’سابق آمر مشرف کیلئے کوئی رحم اور ہمدردی نہیں‘‘۔ رنگ و نور نامی ایک ٹوئٹر ہینڈل نے لکھا ’’سیاہ دور ختم ہوگیا‘‘۔ ماجد نامی صارف نے کہا کہ ’’مشرف نے عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کیا‘‘۔ نایاب فاطمہ نے لکھا کہ ’’لال مسجد جامعہ حفصہ واقعہ کا ذمہ دار آج ایک ایسی عدالت میں چلا گیا، جہاں نہ تو پاور کام آئے گی اور نہ ہی کوئی سفارش چلے گی‘‘۔
دوسری جانب پرویز مشرف کی تعریف کرنے والے ٹوئٹر صارفین نے انہیں ’’شیر پاکستان‘‘ اور ’’بہادر لیڈر‘‘ جیسے خطاب سے نوازا۔ شگفتہ کلیم نے کہا کہ ’’مشرف بھارت کے ساتھ امن چاہتے تھے، لیکن یہ بات سشما سوراج اور ایڈوانی کو پسند نہیں تھی‘‘۔ فہد لودھی نے کہا کہ ’’ایک سچا پاکستانی اور ایک عظیم رہنما ہمیں ہمیشہ کیلئے چھوڑ گیا۔ جنرل پرویز مشرف ہر محاذ پر پاکستان کی بقا کیلئے لڑے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اہلخانہ کو صبر جمیل عطا کرے‘‘۔ ڈاکٹر فضا خان نے بھی پرویز مشرف کے درجات بلندی کی دعا کی۔
میاں عاشر نے لکھا ’’ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ سابق صدر پرویز مشرف کی وفات کی خبر کا سن کر بہت دکھ ہوا، اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں بلند مرتبہ عطا فرمائے اور ان کی فیملی کو ہمت دے‘‘۔ شجاع احمد نے مشرف کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’’تمام پارٹیوں کے رہنما اور ورکرز پرویز مشرف کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں‘‘۔