احمدخلیل جازم :
ایف نائن پارک زیادتی کیس میں وفاقی پولیس شواہد صرف ملزم کے خاکے تک ہی محدود ہے۔ جمعرات کی شام کو ایف نائن پارک اسلام آباد میں ایک لڑکی اپنے دوست کے ساتھ چہل قدمی کے لیے آئی تو اسے وہاں پر دو لوگوں نے گن پوائنٹ پر زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا تھا۔ پولیس اب تک تفتیش میں مصروف ہے اور فی الحال پولیس نے لڑکی سے پوچھ کر ایک ملزم کا خاکہ تیار کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس کے علاوہ پولیس کے پاس کوئی مضبوط کلیو نہیں۔ یہ افسوس ناک واقعہ اس وقت پیش آیا۔ جب جمعرات کی شام میاں چنوں سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی اپنے دفتر کے دوست امجد کے ہمراہ ہوا خوری کے لیے ایف نائن پارک گئی تو وہاں دو لوگوں نے جن میں ایک کی عمر 35 برس کے لگ بھگ اور دوسرے کی 20 برس تھی، گن دکھا کر لڑکی کو اس کے دوست سے الگ لے جاکر ایف نائن پارک سے متصل جنگل میں لے جاکر زیادتی کر ڈالی۔ زیادتی کے بعد ملزمان نے لڑکی سے کہا کہ وہ شام کے اوقات میں پارک مت آیا کرے۔
پولیس کو دیے گئے بیان میں متاثرہ لڑکی نے کہا کہ دو حملہ آوروں نے زیادتی کی۔ زیادتی کے بعد کپڑے دور پھینک دیے تاکہ وہ بھاگ نہ سکے۔ لڑکی نے حملہ آوروں کو دہائیاں دیں، لیکن وہ باز نہیں آئے۔ ڈاکٹرز کے مطابق لڑکی کے جسم پر زیادتی کے نشانات ہیں۔ جب کہ اس کے چہرے پر بھی خراشیں موجود ہیں۔
اس اندوہناک واقعے کے بعد اسلام آباد میں خوف و ہراس پھیل گیا اور علاقہ مکینوںنے شام کے اوقات میں بچوں اور خواتین کو گھروں سے باہر جانے سے روک دیا۔ وفاقی پولیس کے ذرائع سمیت مارگلہ تھانہ کے ایک اہلکار نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فی الحال شواہد میں سب سے اہم وہ خاکہ ہے جو 80 فیصد تک ملزم کی نشان دہی کرتا ہے۔ اسے تمام پولیس اسٹیشنوں میں بھجوادیا گیا ہے۔ جب کہ اس کیس کی تفتیش سائنسی بنیادوں پر کی جارہی ہے۔ پولیس پر اس واقعے کی وجہ سے بہت زیادہ پریشر ہے۔ اس واقعے کی تفتیش کے لیے اسپیشل یونٹ متحرک ہے اور وہی اس تمام واقعے کی تفتیش کر رہا ہے۔ جب کہ پارک میں موجود لوگوں اور انتظامیہ سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب مشکوک افراد کے ڈی این اے لیے جا رہے ہیں اور کیمروں سمیت انٹیلی جنس کی بنیاد پر شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔ خاکہ، سی سی ٹی وی کیمروں سے بھی میچ کیا جارہا ہے۔ جبکہ تفتیش کی نگرانی سی پی او آپریشنز سہیل ظفر چٹھہ کررہے ہیں۔ پولیس نے شک کی بنیاد پر کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کررکھا ہے۔ لیکن ابھی تک کوئی مثبت پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔ اسلام آباد کے تمام تھانوں میں ایسے افرادکا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا جارہا ہے جو ایسے الزامات کے تحت زیر تفتیش رہے ہیں۔
ذرائع نے کاکہنا تھا کہ پولیس گاہے گاہے اس جنگل میں گشت کرتی ہے۔ لیکن ظاہر ہے یہ جنگل بہت بڑا اور ویران ہے۔ ایف نائن پارک کی دیوار کے دوسری سمت اگر کوئی نکل جائے تو اسے ڈھونڈنا مشکل امر ہے۔ جب کہ ایف نائن پارک میں بھی پولیس کے سپاہی تعینات ہوتے ہیں۔ لیکن اتنے بڑے پارک کے ویران گوشوں کی جانب اگر کوئی شام کے اوقات میں جاتا ہے تو جرائم کے ہونے کے امکان بہرحال موجود رہتے ہیں۔ ایف نائن پارک کی انتظامیہ اور اہلکاروں سے بھی تفتیش جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق یہاں آنے والوں کو پارک کے کسی حصے تک محدود نہیں رکھا جاسکتا۔ لوگوں کو اور خاص طور پر خواتین کو خود اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ وہ پارک کے ویران ایریاز کی جانب مت جائیں۔ یہ لڑکی جو اپنے کسی دوست کے ہمراہ آئی تھی، اس کا ویران علاقے کی جانب جانا بذات خود مشکوک عمل ہے۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق پہلے بھی ایف نائن پارک میں ایسے جرائم ہوتے رہے ہیں جن میں2018ء میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہوا جب سی ڈی اے کے چار اہلکاروں نے ایک لڑکی کو ہراساں کیا تھا، جس پر دو اہلکار معطل بھی کردیے گئے تھے۔ جب کہ دسمبر 2021ء میں ورزش کرنے والے ایک شخص کو بھی یہاں تشدد کا نشانہ بنایا جاچکا ہے۔
ایف نائن پارک کے قریب رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایف نائن بظاہر تو ایک پارک ہے، لیکن یہ بہت خطرناک علاقہ ہے۔ یہاں روزانہ درجنوں کے حساب سے مرد، خواتین اور بچے آتے ہیں۔ اکثر لوگ ورزش کے لیے اس جگہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ جب کہ نوجوان جوڑوں کی ملاقات کے لیے یہ بہت آئیڈیل جگہ ہے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں جہاں ویرانی ہوتی ہے وہاں ملاقات کسی اور سے بھی ہوسکتی ہے اور یہی کچھ یہاں ہوا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، متعدد بار یہاں لڑکیوں کو ہراساں کیا گیا ہے۔ بعض کیس رپورٹ ہوتے اور اکثر کیس رجسٹرڈ بھی نہیںہوتے۔ ایف نائن پارک انتظامیہ نے اس حوالے سے کوئی حفاظتی انتظامات نہیں کیے ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے واقعات یہاں تسلسل سے ہورہے ہیں۔