اقبال اعوان :
بھارت سے رہا ہو کر کراچی آنے والے پاکستانی ماہی گیروں نے بھارتی جیلوں میں بدترین تشدد کیے جانے کا پول کھول دیا۔ پاکستانی اور مسلمان ہونے پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے۔ جیلوں میں قید ہندو قیدیوں کی خدمت پر مامور کیا جاتا۔ سارا سارا دن مشقت لے کر سوکھی روٹی اور بدبودار سالن دیا جاتا۔ رمضان میں تراویح یا نمازیں پڑھنا کڑا امتحان ہوتا۔ عید پر صاف کپڑے تک پہننے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔
واضح رہے کہ بھارتی جیلوں سے رہا ہونے والے 17 پاکستانی ماہی گیروں کو چند روز قبل واہگہ بارڈر پر پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا۔ ان میں غلطی سے بارڈر کراس کرنے والے 3 سویلین اور 12 ماہی گیر شامل تھے۔ ان بارہ ماہی گیروں میں سے غلام قادر، میر محمد، عثمان، محمد جمن، مقبول شاہ، اللہ بچایو، عالم، ساون، متھن، لالو ملاح کا تعلق ٹھٹھہ کے علاقوں سے ہے اور شبیر احمد، عبدالسلام اور محمد رفیق کا تعلق کراچی کی ماہی مچھر کالونی سے ہے۔
ان ماہی گیروں کو جمعرات کی دوپہر ایدھی فائونڈیشن کی گاڑی میں کراچی لایا گیا۔ ایدھی کنٹرول ٹاور پر ان کو فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے ایڈمنسٹریٹر زاہد بھٹی نے ریسیو کیا اور ادارے کی جانب سے 20 ہزار روپے فی کس امداد دی گئی۔ رہا ہو کر آنے والوں کے اہل خانہ، رشتہ دار، دوست احباب جو صبح سے منتظر تھے۔ اپنے پیاروں کے آنے پر ان سے لپٹ گئے۔ اس وقت انتہائی رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔
رہا ہو کر آنے والے میر محمد نے زندہ سلامت واپس آنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں 24 مارچ 2017ء کو شاہ بندر ٹھٹھہ سے لانچ لے کر دیگر ماہی گیروں کے ساتھ بچوں کی روزی روٹی کے لیے نکلا تھا۔ میں خود لانچ کا ناخدا تھا۔ رات کے وقت پانی کی لہریں تیز ہونے پر بس غلطی ہو گئی اور غلطی کا پتا تب چلا جب سرچ لائٹوں والی بھارتی کوسٹ گارڈ کی اسپیڈو بوٹس نے گھیر لیا۔ دیگر اطراف کی لانچیں ادھر ادھر ہو گئیں۔ جبکہ ہماری لانچ کو اسلحہ کے زور پر گھیرے میں لے کر جہاز تک لے گئے اور وہاں اس طرح کا سلوک کیا گیا کہ گویا تربیت یافتہ دہشت گرد یا جاسوس ہوں۔ پاکستانیوں اور مسلمانوں سے نفرت کا اظہار پہلی رات کو ہی پتہ چل گیا۔
کئی روز تک سخت تشدد کر کے تفتیش کرتے رہے۔ ظلم کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرکے پوچھا جاتا رہا کہ کس لیے بھارت میں آئے تھے۔ لاکھ بار کہا کہ غریب ماہی گیر ہیں۔ بچوں کی روٹی کے لیے شکار کرنے نکلے تھے۔ لیکن فارن ایکٹ اور غیر قانونی شکار کے علاوہ نہ جانے کون کون سے الزامات کے تحت مقدمہ کر کے جیلسی (JALSI) بجھ جیل میں بھیج دیا گیا۔ قید کے 6 برسوں میں جو سلوک کیا گیا۔ وہ ایک ایک لمحہ کس طرح گزارا۔ میں جانتا ہوں اور میرا اللہ تعالیٰ‘‘۔
میر محمد نے بتایا کہ بھارتی جیلوں میں مسلمان اور پاکستانی قیدیوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے۔ رہا کرتے وقت جیل حکام اور واہگہ بارڈر تک لانے کے دوران بھارتی اہلکار کچگ بھی بتانے سے منع کرتے ہیں اور بلیک میل کرتے ہیں کہ تم ماہی گیر ہو۔ دوبارہ پکڑے گئے تو ساری کسر نکال دیں گے اور لاش ہی واپس جائے گی‘‘۔
ماہی گیر عبدالسلام نے کہا کہ ’’میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کروں گا کہ جو پاکستانی ماہی گیر بھارتی جیلوں میں قید ہیں، ان کو رہا کرایا جائے۔ ورنہ ظالم مودی سرکار ان کو جیلوں میں مار دے گی۔ ہمارا قصور اتنا نہیں ہوتا کہ فارن ایکٹ کے تحت تھوڑی بہت سزا دے کر واپس کر دیا جائے۔ بھارتی سمندری حدود میں جانے کا شوق نہیں۔ بلکہ کھلے سمندر میں چھوٹی لانچوں میں جدید آلات نہ ہونے پر بارڈر کا پتہ ہی نہیں چلتا۔
بھارتی جیلوں میں 10 سال کا عرصہ کاٹا ہے۔ جیل میں جانوروں جیسا سلوک ہوتا تھا۔ 10 سال کے دوران گھر والوں سے کوئی رابطہ نہیں کرایا گیا۔ دن بھر مشقت لی جاتی تھی۔ دوپہر اور شام کو دو دو سوکھی روٹیاں ملتی تھیں۔ پالک، دال یا کوئی سالن دیا جاتا۔ زیادہ تر سالن شام کو خراب ملتا تھا۔ اگر شکایت کرو تو تشدد کرتے تھے اور بھوکا پیاسا رکھتے تھے۔ پینے کے پانی گندا، بدبو اور بورنگ کا کا ہوتا تھا‘‘۔
ماہی گیر متھن جنت کا کہنا تھا کہ ’’پورے مہینے میں ایک صابن ملتا تھا کہ اس سے نہا لو یا کپڑے دھو لو۔ صبح سے رات تک بیرکوں کی صفائی کرنا روزانہ کا معمول تھا۔ بیرک میں ہندو قیدیوں کی خدمت کرانے پر رکھا جاتا تھا۔ جیل میں ہندو قیدیوں کے واش روم تک دھونا پاکستانی ماہی گیروں کی ذمہ داری تھی۔
6 سال کے دوران کئی بار حکام سے کہا گیا کہ پاکستان میں اہل خانہ سے بات کرا دو۔ مگر منع کر دیا جاتا۔ جب بھی پاک بھارت کشیدگی بڑھتی تو سارا غصہ ہم پاکستانی قیدیوں پر نکالا جاتا۔ بیرک میں چھپ کر نماز ادا کرتے تھے کہ گندگی کے کاموں پر زیادہ تر نماز پڑھنے والوں کو لگایا جاتا تھا۔ روزے کے لیے رات کی روٹی بطور سحری اور دوپہر کی روٹی افطاری کے لیے رکھتے تھے۔ ہماری ان حالات میں عید کیا ہوتی۔ عید کا دن بھی گندے میلے کپڑوں میں گزارتے۔ آئے روز سادے کپڑے میں ملبوس حکام آکر تفتیش کرتے تھے اور بعد میں تشدد کیا جاتا تھا‘‘۔
ماہی گیر شبیر احمد نے بتایا کہ 6 سال جیل کاٹی اور نوجوان ہونے کی وجہ سے اتنا ٹارچر کیا گیا کہ اب زندگی بھر ماہی گیر نہیں کروں گا۔ اس بار تو جان بچ گئی۔
ماہی گیر لالو ملاح کا کہنا ہے کہ ’’اگر جیل کے ماہی گیر بیمار ہو جاتے تو کہا جاتا کہ بہانہ کر رہا ہے اور مشقت بڑھا دی جاتی۔ ڈاکٹر کو نہیں بلواتے تھے۔ نہ دوائی دیتے تھے۔ وہاں قید ماہی گیر گردوں، دل، سانس، ہڈیوں، جوڑوں، سردرد اور ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ناقص خوراک، علاج نہ ہونے، نیند نہ کرنے دینے، مشقت زیادہ کرانے، صفائی نہ رکھنے دینے اور دیگر مسائل پر اکثر قیدی بیمار رہتے ہیں‘‘۔
فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے ایڈمنسٹریٹر زاہد بھٹی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ سرکاری طور پر اب بھی بھارت میں 106 ماہی گیر قید ہیں۔ بعض ماہی گیروں کی لانچوں کے حوالے سے آگاہی نہیں دی جاتی۔ کئی لانچیں اب بھی لاپتہ ہیں۔ جبکہ بھارت ان ماہی گیروں کے حوالے سے بتانے کو تیار نہیں۔ اگر ماہی گیر غلطی سے اس طرف چلا جاتا ہے تو معمولی سزا دے کر واپس کیا جا سکتا ہے۔ کم از کم ان کے ساتھ دہشت گرد کی طرح ڈیلنگ تو نہ کی جائے۔ جیلوں میں تشدد، خراب سلوک، ناقص کھانا، مذہبی آزادی سمیت دیگر مسائل پر عمل درآمد کرایا جائے۔
پاکستان فشرفوک کے ترجمان کمال شاہ کا کہنا ہے کہ بھارتی جیلوں میں قید ماہی گیروں سے جانوروں والا سلوک کیا جاتا ہے۔ پاکستانی حکام کو خطوط لکھے ہیں کہ بھارتی جیلوں میں قید ماہی گیروں کو رہا کرایا جائے۔