اقبال اعوان :
متحدہ پاکستان نے فوارہ چوک پر اپنا احتجاجی دھرنا، وفاقی اداروں کی سرزنش پر ملتوی کردیا۔ ایک جانب شہر میں کارکن موجودہ حالات میں نکلنے کو تیار نہیں تھے۔ تو دوسری طرف تینوں دھڑوں میں اگلے ماہ ہونے والے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے لئے ٹکٹوں کی بندر بانٹ پر پھوٹ پڑنا شروع ہوگئی ہے جبکہ بعض متحدہ رہنما احتجاجی دھرنے سے منع کرچکے تھے کہ بحریہ کی بین الاقوامی مشقیں ہو رہی ہیں۔ سیکiورٹی خدشات کے باعث ہائی الرٹ بھی ہے۔ اس لیے یہ ایونٹ نہ کریں۔
دوسری جانب ایک بار پھر متحدہ پاکستان نے گورنر سندھ کے ذریعہ پیپلز پارٹی سے بیک ڈور رابطے شروع کردیے ہیں۔
واضح رہے کہ کراچی میں بین الاقوامی بحری مشقوں کے حوالے سے تشہیری مہم کا آغاز دو ڈھائی ماہ قبل ہوا تھا۔ جبکہ متحدہ پاکستان نے چند روز قبل اعلان کردیا تھا کہ وفاقی اور سندھ حکومتیں دفاتر کے حوالے سے اور حلقہ بندیاں درست کرنے کے بارے میں بات چیت نہیں کرنا چاہتی ہیں۔ لہٰذا اتوار 12 فروری سے صدر کے علاقے میں گورنر ہائوس کے سامنے فوارہ چوک پر غیر معینہ مدت کے لئے احتجاجی دھرنا شروع کریں گے۔ اور ماضی کی طرح بھرپور احتجاج کرکے دبائو ڈالیں گے کہ ان کے مطالبات جلد از جلد پورے کئے جائیں۔ اس اعلان کے بعد متحدہ پاکستان سے پیپلز پارٹی نے رابطہ نہیں کیا اور نہ وفاق نے لفٹ کرائی۔ گورنر سندھ اس دوران بیرون ملک تھے۔
متحدہ پاکستان نے شہر بھر میں مہم چلانے کی کوشش کی، تاہم رزلٹ صفر ملا کہ ذمہ دار اور کارکن ہائی الرٹ کے حالات میں اپنے لئے مسائل کھڑے نہیں کرنا چاہتے اور اگر دھرنا دیا جاتا تو خاصی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا۔ جبکہ ہفتے کو گورنر سندھ بہادرآباد مرکز گئے اور وفاقی اداروں کا سخت پیغام متحدہ پاکستان کو پہنچایا جس کے بعد اعلان کردیا گیا کہ دھرنا ملتوی کر رہے ہیں۔ ابھی بحریہ کی مشقیں ہورہی ہیں، اس کے بعد دوبارہ اعلان کریں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تینوں دھڑوں کے ملنے کے باوجود یہ آپس میں متحد نہیں ہوسکے ہیں۔ متحدہ پاکستان کے بعض رہنما اس حوالے سے شدید ناراض ہیں کہ پاک سرزمین پارٹی نے متحدہ پاکستان کو ہائی جیک کرلیا ہے اور مصطفیٰ کمال اور دیگر لوگ اپنی بات منوارہے ہیں۔ مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار، متحدہ کو ماضی کی طرح دھونس دھمکی اور بلیک میلنگ والی پارٹی بنانا چاہتے ہیں۔ جبکہ متحدہ پاکستان کے بعض رہنما اپنا تسلط رکھنا چاہتے ہیں۔
متحدہ نے 16 مارچ کو کراچی میں قومی اسمبلی کی 9 نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ لیکن ٹکٹوں کی بندربانٹ پر تینوں دھڑوں کے بڑوں میں پھوٹ پڑگئی ہے کہ زیادہ ٹکٹ مصطفیٰ کمال گروپ نے لئے ہیں۔ مصطفیٰ کمال، شبیر قائم خانی اور دیگر امیدوار ہوں گے۔
اسی طرح فاروق ستار بھی امیدوار ہوں گے۔ متحدہ پاکستان کے بعض رہنمائوں کا خیال تھا کہ بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہئے تھا اور ضمنی الیکشن میں دیگر گروپوں فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کو آتے ہی مضبوط نہیں کرنا چاہئے تھا۔ متحدہ پاکستان کے بعض رہنما ناراض ہوکر دفاتر نہیں آرہے ہیں اور بعض پیپلز پارٹی اور دیگر پارٹیوں میں جانے کے لئے پرتول رہے ہیں۔ یہی صورتحال پاک سرزمین پارٹی اور فاروق ستار گروپ کی رہنمائوں کی ہے کہ جو متحدہ پاکستان کے ساتھ ملنے پر خوش نہیں تھے اور اب دوسری پارٹیوں میں جانے کے حوالے سے کوشش کر رہے ہیں۔
متحدہ پاکستان کے سینئر رہنما عامر خان جو اپنا بڑا گروپ رکھتے ہیں، تاحال خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور مداحلت نہیں کر رہے ہیں۔ متحدہ پاکستان کے پرانے ناراض رہنما، عامر خان کو مداخلت کے لئے کہہ رہے ہیں اور دبائو ڈال رہے ہیں۔
دوسری جانب گورنر سندھ کے ذریعے پیپلز پارٹی اور متحدہ پاکستان میں بیک ڈور رابطے شروع ہوچکے ہیں۔ متحدہ پاکستان اب ضمنی الیکشن میں بھرپور حصہ لینے والی پیپلز پارٹی سے جوڑ توڑ کر رہی ہے کہ دونوں پارٹیاں طے کرکے الیکشن میں حصہ لیں اور نشستیں بانٹ لیں۔ جبکہ متحدہ پاکستان ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے ساتھ سندھ کابینہ میں شامل ہونے کے چکر میں ہے کہ خزانہ، داخلہ یا بلدیات میں کوئی وزارت مل جائے۔ متحدہ پاکستان کے ذرائع کے بقول ابھی تو ٹکٹوں کے حوالے سے آپس میں ناچاقی چل رہی ہے اور بہت جلد یہ ناراضگی، رہنمائوں کی دوسری پارٹیوں میں شمولیت پر نظر آجائے گی۔