عارف الحق عارف
صاحب تحریر
جو ہم سے طلب گار ہے تحسین و ثناءکا
وہ لائق تحسین و ثناءہی تو نہیں ہے
نازاں ہم لوگ ہیں اغیار کی جس ایڈ پہ
وہ قرض ہے، قرض حَسنہ ہی تو نہیں ہے
رئیس امروہوی بھی جنگ کی کہکشاں کا ایک ایسا اہم ستارہ تھے جس نے اپنی زندگی کا کم وبیش دو تہائی حصہ اس اخبار میں قطعہ نگاری اور عوامی مسائل پر ”تحلیل نفسی“ کے عنوان سے کالم لکھتے گزار دیا۔ ان کا یہ تعلق 22ستمبر 1988کو اس وقت اچانک منقطع ہوگیا جب ایک نہایت سنگ دل قاتل نے شب ِ تنہائی میں اردو کے اس ”امام قطعہ نگاری“ کی شمع حیات گل کر دی۔ سیّد رئیس امروہوی کا تعلق بھی اسی مردم خیز خطے امروہہ اور اردو ادب، شاعری، مرثیہ نگاری اور علم وفن کے اسی گھرانے سے تھا جس نے دنیائے علم و ادب کو سیّد شفیق حَسن ایلیا جیسا شاعر اور ماہر علم نجوم، سیّد محمد تقی جیسا فلسفی اور ایڈیٹر، جون ایلیا جیسا شاعر بے بدل اور عباس امروہوی جیسا نثرنگار اور کہانی کار دیئے۔ رئیس بھائی بھی سیّد محمد تقی، یوسف صدیقی اور کارٹونسٹ سمیع کے ساتھ بانی روزنامہ جنگ میر خلیل الرحمن کی سربراہی میں جنگ کی ابتدائی ٹیم کا حصہ تھے۔ ہم اُن کے نام سے تو پہلے ہی واقف تھے لیکن بالمشافہ ملاقات جنگ میں ملازمت کے چند سال بعد ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنا قطعہ گھر ہی سے فون پر ہمارے پروف ریڈر مشیر واسطی یا کسی اور کو لکھوا دیاکرتے اور ہفتہ وار کالم یوسف صدیقی کو بھجوا دیتے تھے۔
ایک دن معلوم ہوا کہ رئیس امروہوی دفتر آئے ہوئے ہیں اور ایڈیٹر کے کمرے میں موجود ہیں۔ ہمیں اُن سے ملنے اور بالمشافہ بات کرنے کا بڑا شوق تھا اس لئے اپنے کام کے ساتھ نظریں اسی کمرے کی طرف مرکوز رکھیں۔ کچھ دیر بعد جب دروازہ کھلا تو کریم کلر کی شیروانی میں بڑی عمر کے ایک دبلے پتلے لیکن بلند قامت شخص باہر آتے ہوئے نظر آئے۔ وہ وضع قطع ہی سے شاعر لگتے تھے۔ ہم فوراً سمجھ گئے کہ یہی رئیس امروہوی ہیں۔ ہم اِس موقعے کو ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے، اس لئے اپنا کام چھوڑ کر ان کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ وہ ایک دوسرے ساتھی سے محو گفتگو تھے۔ ہم ان کی بات چیت ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے، بولے ”میاں! یہیں کام کرتے ہو؟“ ہمارے جواب پر خوش ہوئے اور کہنے لگے، ”ملتے رہا کرو۔“ یہ ہماری اُن سے پہلی ملاقات تھی جو بعد میں دوستی میں بدل گئی۔ اور ہماری اور سیّد محمود احمد مدنی کی اُن سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ وہ اور مدنی بھائی تو ایک دوسرے کو عرصے سے جانتے تھے تاہم، اس طرح آپس میں ملنا جُلنا نہیں تھا۔ اب ہم اکثر مہینے دو مہینے میں کسی چائنیز یا ایرانی ریسٹورنٹ میں کھانے یا مدنی صاحب یا اپنے گھر پر ناشتے پر ملتے۔ کبھی کبھی وہ اپنے ساتھ اپنے ایک ماہر علم نجوم دوست سیّد سبطین حیدر کو بھی لاتے، جو اُن کے کالم میں زائچے بنا کر اپنا تجزیہ پیش کرتے تھے۔ ان ملاقاتوں میں دنیا جہان کی باتیں ہوتیں۔ ملکی حالات پر ان کا تبصرہ وتجزیہ ہوتا۔ اب ہم سوچتے ہیں کہ کہاں ہم اور کہاں یہ شخصیات!! یہ سب اس لئے ممکن ہوا تھا کہ ہم جنگ جیسے بڑے اخبار کے ادارتی عملے میں شامل تھے۔ اس سوچ اور احساس سے ہمارے دل میں چودھری غلام محمد مرحوم کے لئے احترام اور تشکر کے جذبات میں اضافہ ہو جاتا ہے جنہوں نے ہمیں صحافت کا پیشہ اختیار کرنے کی ترغیب دی اور یوسف صدیقی سے متعارف کرایا تھا۔
رئیس امروہوی 12ستمبر 1914 کو امروہہ میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے والد شفیق حَسن ایلیا جیسے شاعر، ادیب اور ماہر علم نجوم سے گھر میں حاصل کی اور اردو، عربی اور فارسی پر عبور حاصل کیا۔ یہ زبانیں ان کے گھر میں نہ صرف بولی جاتیں بلکہ ان میں شاعری کی مشق بھی کی جاتی تھی۔ اس لئے بہت کم عرصے میں وہ کہنہ مشق شاعر اور ادیب بن گئے۔ یہ باتیں وہ اکثر ہمیں بتایا کرتے تھے۔ اُن کے والد کی ان پر خاص توجہ اس لئے بھی تھی کہ وہ ان کے بڑے بیٹے تھے۔ اردو میں لکھنا اور شعر کہنا اس گھرانے کا روزمرہ کا معمول تھا۔ اس لئے اردو سے ان کی محبت مثالی تھی۔ اردو زبان کی ترویج اور اس کو عوام کی مقبول زبان بنانے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے۔ اگر کچھ اس کے خلاف ہو رہا ہوتا تو پوری قوت کے ساتھ سینہ سپر ہو جاتے۔ ایسا ہی ایک موقع 1972 میں پیش آیا جب سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دَور میں اسمبلی میں سندھی زبان کا بل پیش کیا گیا جس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ یہ قانون سازی اردو کی اہمیت کم کرنے کے لئے کی جا رہی ہے۔ اس کا سندھ اسمبلی اور اردو بولنے والی آبادی میں شدید ردعمل ہوا۔ بل پیش ہوتے ہی کراچی میں ہنگامے شروع ہوگئے اور عوام سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکل کھڑے ہوئے۔ ایسے موقعے پر رئیس امروہوی کہاں خاموش رہنے والے تھے۔ انہوں نے اُسی وقت وہ مشہور نظم لکھ کر اردو کے حق میں چلنے والی تحریک میں جان ڈال دی، جس کا ایک مصرع ”اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے“ بہت ہی مقبول ہوا۔ یہ مصرع دوسرے دن جنگ اخبار میں سیاہ حاشیے کے ساتھ شہ سرخی کے طور پر شائع ہوا جو بعد میں اردو کی تحریک کا مقبول نعرہ بن گیا۔ پوری نظم یہ تھی۔
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
کیوں جان حزیں خطرہ موہوم سے نکلے
کیوں نالہ حسرت دل مغموم سے نکلے
آنسو نہ کسی دیدہ مظلوم سے نکلے
کہہ دو کہ نہ شکوہ لب مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کا غم مرگ سبک بھی ہے گراں بھی
ہے شامل ارباب عزا شاہ جہاں بھی
مٹنے کو ہے اسلاف کی عظمت کا نشاں بھی
یہ میت غم دہلی مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اے تاج محل نقش بدیوار ہو غم سے
اے قلعہ شاہی ! یہ الم پوچھ نہ ہم سے
اے خاک اودھ !فائیدہ کیا شرح ستم سے
تحریک یہ مصر و عرب و روم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
سایہ ہو اردو کے جنازے پہ ولی کا
ہوں میر تقی ساتھ تو ہمراہ ہوں سودا
دفنائیں اسے مصحفی و ناسخ و انشاء
یہ فال ہر اک دفتر منظوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
بدذوق احباب سے گو ذوق ہیں رنجور
اردوئے معلیٰ کے نہ ماتم سے رہیں دور
تلقین سر قبر پڑھیں مومن مغفور
فریاد دل غالب مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
ہیں مرثیہ خواں قوم ہیں اردو کے بہت کم
کہہ دوکہ انیس اس کا لکھیں مرثیہ غم
جنت سے دبیر آ کے پڑھیں نوحہ ماتم
یہ چیخ اٹھے دل سے نہ حلقوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اس لاش کو چپکے سے کوئی دفن نہ کر دے
پہلے کوئی سر سیداعظم کو خبر دے
وہ مرد خدا ہم میں نئی روح تو بھر دے
وہ روح کہ موجود نہ معدوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کےجنازے کی یہ سج دھج ہو نرالی
صف بستہ ہوں مرحومہ کے سب وارث و والی
آزاد و نذیر و شرر و شبلی و حالی
فریاد یہ سب کے دل مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اس تاریخی نظم کایوں تو ہر شعر بہترین ہے لیکن جس مصرعے نے عالمی شہرت حاصل کی وہ یہی ایک مصرع ہے کہ
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔
رئیس امروہوی بعد میںُ عملی طور پر اس تحریک کے لیڈر بھی بن گئے۔دوسرے رہنماؤں میں سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر جی اے مدنی، حیدرآباد کے نواب مظفر علی خان، ڈاکٹر اشتیاق حُسین قریشی اور پروفیسر شاہ فریدالحق شامل تھے۔
ہم نے رئیس امروہوی جیسا قادر الکلام شاعر اور قطعہ نگار نہیں دیکھا۔ ہمیں اکثر گارڈن ایسٹ میں ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ بات کرتے کرتے اُن پر شعر کہنے کا موڈ طاری ہو جاتا تب وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے سیکریٹری کو شعر لکھوانے شروع کر دیتے۔ ہم نے ان کو گھر میں ٹہلتے ہوئے کئی قطعات اور غزلیں فی البدیہہ لکھواتے ہوئے خود دیکھا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ اشعار ان پر کہیں سے نازل ہو رہے ہیں۔ ان کا جنگ میں حالات حاضرہ پر قطعہ لکھنے کا جو سلسلہ دلّی سے شروع ہوا تھا، وہ کراچی میں ان کی شہادت تک جاری رہا۔ وہ خود بتایاکرتے تھے کہ اُنہیں یاد نہیں کہ کبھی اس میں ناغہ ہوا ہو۔ ان کے قطعات، غزلوں اور کالموں کے مجموعوں کے علاوہ عوامی، سماجی اور نفسیاتی مسائل پر بھی کئی کتب شائع ہو چکی ہیں، جن میں الف، مثنوی لیلہ¿ صحرا، پس غبار، قطعات (دو جلدیں)، حکایات، باحضرت یزداں، ملبوس بہار، آثار، کلیات، نسیم سحر اور صریر خامہ کے علاوہ مراقبہ، مابعدالنفسیات، نفسیات ومابعدالنفسیات، عجائب نفس (چارجلدیں)، لے سانس بھی آہستہ (دوجلدیں)، جنسیات (دوجلدیں)، عالم برزخ (دوجلدیں)، حاضرات ارواح، ہپناٹزم، توجیہات (دو جلدیں)، جنّات (دو جلدیں)، عالم ارواح، المیہ مشرقی پاکستان، اچھے میاں اور انا من الحُسین شامل ہیں۔ ایسے اَن مول ہیرے اب کہاں..