چند روزہ قید سے شیخ رشید بلِبلا اٹھے

احمد خلیل جازم :
سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے وکیل کے ذریعے نا روا سلوک کا واویلا شروع کردیا ۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ انہیں اڈیالہ جیل میں ناروا سلوک کا سامنا ہے۔ انہیں جیل پولیس کے حکام رات بھر سونے نہیں دیتے، ان کی طبیعت کافی خراب ہے۔

اس تناظر میں مسلم لیگ ’ن‘ کے میاں جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ ’ہم نے چھ چھ ماہ جیل کاٹ لی۔ جو سلوک انہوں نے اپنے دور حکومت میں ہمارے ساتھ کیا، ہم نے تو کبھی اس طرح رونا دھونا نہیں کیا۔ یہ دو دن کے لیے جیل جاتے ہیں اور اپنے ساتھ زیادتیوں کا رونا روتے ہیں۔ جو بھی پی ٹی آئی کا رہنما جیل یاترا کرتا ہے، وہ یہی کہتا ہے کہ اس کے ساتھ جیل میں اچھا سلوک نہیں کیا جارہا‘۔

یاد رہے کہ شیخ رشید احمد ان دنوں آصف علی زرداری پر الزامات کی وجہ سے جیل میں ہیں اور کورٹ نے ان کی ضمانت کی درخواست بھی مسترد کردی ہے۔ شیخ رشید احمد اور ان کے وکلا کو بہت زیادہ توقع تھی کہ ایک دو روز بعد ان کی ضمانت ہوجائے گی اور وہ جیل سے باہر آجائیں گے۔ اب جیل کو سسرال کہنے والے شیخ رشید الزام عاید کر رہے ہیں کہ جیل حکام انہیں تنگ کررہے ہیں اور رات رات بھر سونے نہیں دیتے۔

شیخ رشید احمد کے ان الزامات میں کتنی صداقت ہے؟ اس حوالے سے ’’امت‘‘ نے اڈیالہ جیل ذرائع سے بات کی تو ان ذرائع کا کہنا تھا کہ، شیخ رشید احمد جھوٹ بول رہے ہیں۔ انہیں اسی سیل نمبر دو میں رکھا گیا ہے، جہاں اس سے قبل سیاسی نوعیت کے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ یہ سیل جو پانچ قیدیوں کے لیے بنایا گیا تھا، وہاں انہیں ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ کوئی قید تنہائی نہیں ہے، بلکہ ان کے پاس دن رات اہلکار موجود رہتے ہیں اور ایک اسسٹنٹ سپرٹنڈنٹ بھی ان پر مستقل ڈیوٹی دے رہا ہے۔

ایسے سیاسی قیدی یونہی ڈرامے کرتے ہیں۔ جیل کو سسرال کہنے والے شیخ رشید کو یاد رکھنا چاہیے کہ جیل میں انہیں گھر جیسی سہولیات نہیں مل سکتیں۔ اگر انہیں گھر کا ماحول ہی دینا ہے تو پھرجیل آنے کا کیا فائدہ؟ البتہ شیخ رشید کے لیے گھر سے ان کی مرضی کا کھانا آتاہے اور انہیں جوچیزیں چاہیے ہوتی ہیں وہ انہیں بروقت مہیا کی جاتی ہیں۔ اڈیالہ جیل حکام کسی سے ذاتی یا انفرادی سلوک ہرگز نہیں کرتے۔ ماضی میں اسی جیل میں ہر پارٹی کے لوگ آتے رہے ہیں ہیں۔

گزشتہ دور حکومت میں درجنوں دوسری پارٹیوں کے سینئر رہنما آتے رہے، بتایا جائے کہ انہوں نے کبھی ایسا کبھی شکوا کیا ہے؟ جیسا شکوا شیخ رشید احمد اور دیگر پی ٹی آئی رہنما کرتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ شہباز گل اور اعظم سواتی جیسے نازک مزاج لوگوں کے لیے جیل نئی بات ہوسکتی ہے۔ لیکن شیخ رشید احمد تو پہلے بھی جیل یاتراکرچکے ہیں اور کئی بار کرچکے ہیں۔ اڈیالہ جیل میں بھی پہلے متعدد بار رہ چکے ہیں۔ لیکن اب شاید ان کی پارٹی اور تحریک انصاف نے یہ وطیرہ اختیار کرلیا ہے کہ وہ الزام تراشیوں پر اتر کر ہمدردیاں سمیٹ سکیں۔ یہ دائو پیچ سیاست میں تو کامیاب ہوسکتے ہیں، لیکن جیل ایک بالکل الگ چیز ہے۔ شیخ رشید اگرچہ سیاسی قیدی ہیں۔ لیکن انہوں نے سیاسی مراعات کے لیے کسی قسم کی کوئی درخواست نہیں دی۔ اگر وہ درخواست دیتے تو اس پر فوری کارروائی شروع کی جاسکتی تھی۔ اب انہیں جس سیل میں رکھا گیا ہے وہ دیگر سیلز سے کئی گنا بہتر اور اچھی حالت میں ہے اور ان کی ہر طرح سے دیکھ بھال کی جارہی ہے۔

اس حوالے سے ڈی آئی جی راولپنڈی ریجن کے ذرائع نے بتایا کہ، اڈیالہ جیل سمیت پنڈی رینج کی تمام جیلوں کی دن بھر کی رپورٹ ڈی آئی جی کو رات بارہ بجے سے پہلے بھیج دی جاتی ہے۔ اگر کوئی سیاسی قیدی یا عام قیدی اس طرح کی شکایت کرتا ہے تو جیل حکام فوری طور پر ڈی آئی جی آفس کو لکھ بھیجتے ہیں۔

اڈیالہ جیل میں شیخ رشید احمد کا دیگر قیدیوں کی نسبت زیادہ خیال رکھا جارہا ہے۔ ان کے سیاسی قدکاٹھ سے قطع نظر وہ ایک بزرگ شہری بھی ہیں اور انہیں بروقت دوائیں وغیرہ دینا محکمے کی اولین ذمہ داری ہے۔ ایک سینئر اہلکار مستقل ان کے پاس موجود رہتا ہے اور وہ ان کی دادرسی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا۔ پھر ان کے وکیل کا ایسا کہنا کہ جیل حکام انہیں سونے نہیں دیتے، سمجھ سے بالا تر ہے۔

ڈی آئی جی آفس سے سینئر اہلکار رات اور دن کے اوقات میں بارہا وزٹ کرتے ہیں اور اپنے طور پر قیدیوں کے مسائل اور دیکھ بھال کا نظام جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو اس حوالے سے ڈی آئی جی آفس کو دیگر ذرائع سے بھی رپورٹ مل جاتی۔

علاوہ ازیں سیشن جج سمیت دیگر ججز بھی روٹین میں جیل وزٹ کرتے ہیں اور قیدیوں سے جیل میں ہونے والے سلوک پر بات چیت کرتے ہیں۔ ایسی بات ہوتی تو شیخ رشید انہیں بھی بتا سکتے تھے۔ شیخ رشید سستی شہرت اور ہمدردی بٹورنے کے لیے ایسا الزام عاید کررہے ہیں، جس کی جیل حکام سختی سے تردید کرتے ہیں۔