نواز طاہر :
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ’’جیل بھرو تحریک‘‘ کیلیے گرفتاریوں کا شیڈول جاری کردیا ہے جبکہ اپنی گرفتاری کے خوف سے لاہور کا نام شہروں کی فہرست سے شامل ہی نہیں کیا۔ یہی نہیں عمران خان نے تحریک کے دوران گرفتاریوں سے بھاگنے والوں کو کھسکنے کا موقع نہ دینے کیلیے فہرستوں اور اس میں سابق اراکین اسمبلی و رہنماﺅں کے نام شامل کرنے کا اختیار اپنے پاس رکھا ہے اور زیادہ تر ذمہ داریاں ان لوگوں کو بھی تفویض کی ہیں جو پچھلے سال 25 مئی کے لانگ مارچ میں غیر متحرک قرار دیے گئے تھے۔
البتہ اس تحریک میں خود ان کا اپنا اور ہم رہنماﺅں کا نام شامل ہونے کی تصدیق نہیں کی جارہی۔ جبکہ جیل بھرو تحریک سے اختلاف رائے رکھنے والوں کو بھی اس ’’امتحان‘‘ سے گزرنا پڑے گا اور کسی مرحلے پر عمران خان کے خود گرفتار ہوجانے کی صورت میں بھی عمران خان نے معاملات چلانے کیلئے ذمہ داروں کا تعین کردیا ہے۔
یاد رہے کہ عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا اعلان عدالت کے روبرو پیش ہونے کا فیصلہ کرنے سے پہلے ویڈیو لنک پر خطاب میں کیا تھا۔ اور اب پہلے مرحلے میں دو ہزار کارکنوں کی گرفتاری کا شیڈول بھی جاری کردیا ہے۔
پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کسی مشاورت کے بغیر کیا ہے۔ تاہم اس تحریک کیلیے تجویز پہلے سے ہی دی جارہی تھیں جن سے کئی رہنما اختلاف رائے رکھتے تھے اور ان کا موقف تھا کہ ہم اپنے حلقوں کے معتبر لوگ ہیں، ہمیں گرفتاریاں دینے سے سماجی سطح پر مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور یہ ہمارے اس خاندانی وقار کے بھی منافی ہے جسے برقرا رکھنے کیلئے ہمارے علاقوں کے اعلیٰ افسر وقتاً فوقتاً ہمارے ڈیروں پر حاضری دینے کے پابند ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس کچھ رہنماﺅں نے عمران خان کو یہ تک باور کروایا تھا کہ کارکنوں کا جذبہ ابھارنے کی ضرورت ہے، کارکنان نہ صرف جیلیں بھر دیں گے بلکہ اگر آپ کال دیں گے تو وہ جیلوں کو توڑ بھی دیں گے، تحریک کا اعلان ہونا چاہئے اور بھلے جیل بھرو اور جیل توڑو تحریک ہی کا اعلان کردیں جس پر عمران خان نے مسکراتے ہوئے جیل توڑ دو تحریک کی بات ٹال دی اور ہوم ورک کی ہدایت کردی۔ جمعہ کے روز جب انہیں یہ یقین ہوگیا کہ عدالت میں پیش ہونا ہی پڑے گا ورنہ مسائل گھمبیر ہوسکتے ہیں تو انہوں نے تحریک کا اعلان کردیا جس کے تحت 22 فروری سے پی ٹی آئی کے دو سو کارکنان روزانہ گرفتاری پیش کریں گے۔
ہفتے کے روز اس فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے جماعت کی طرف سے جیل بھرو تحریک کے شیڈول کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا۔ اس شیڈول کے تحت 22 فروری بدھ سے یکم مارچ تک روزانہ دو سو کارکنان اور چھ سابق اراکین اسمبلی رضاکارانہ طور پر گرفتاریاں پیش کریں گے اور انہیں گرفتار نہ کیے جانے کی صورت میں وہ مقررہ مقام پر دھرنا دیں گے۔ شیڈول کے تحت جمعرات 23 فروری کو پشاور، 24 کو راولپنڈی، 25 کو ملتان، 26 کو گوجرانولہ، 27 کو سرگودھا، 28 فروری کو ساہیوال اور یکم مارچ کو فیصل آباد میں رضاکارانہ گرفتاری دی جائے گی۔
جیل بھرو تحریک کے تحت گرفتاریاں دینے کے پہلے روز کارکنوں اور اراکین کی قیادت پنجاب کے سابق گورنر عمر سرفراز چیمہ کریں گے۔ جبکہ جو چھ سابق اراکین اس گروپ میں شامل ہوں گے۔ ان کے نام خود عمران خان دیں گے۔ پی ٹی آئی کے مطابق گرفتاریاں دینے کیلئے شاہراہ قائد اعظم کا انتخاب کیا گیا۔ تاہم اس کے مقام کا اعلان نہیں کیا گیا۔ البتہ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مقام پنجاب اسمبلی کے سامنے فیصل چوک (چیئرنگ کراس) ہوسکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق ماضی میں اچانک بیماری کا بہانہ بنانے والوں کا راستہ محدود کرنے کیلئے عمران خان نے اپنی جماعت کے رہنماﺅں کی طبی تفصیلات پہلے ہی حاصل کرلی ہیں اور گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ اسی دوران پیش آنے والی صورتحال میں ان کی غیر موجودگی کی صورت میں معاملات نمٹانے کیلیے بھی اختیارات تفویض کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن پر عملدرآمد کیلیے ان کی منظوری لینا بھی لازمی ہوگا اور اس کے علاوہ بھی ایک سے زائد پلان ترتیب دیے گئے ہیں اور گزشتہ سال پچیس مئی کےاحتجاج کے دوران ’’کمزور‘‘ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو اب بہتر کارکردگی کا موقع دیا جارہا ہے، عمران خان نے جن رہنماﺅں کو زیادہ ذمہ داریاں سونپنے کا فیصلہ کیا ہے ان کے پی ٹی آئی میں شامل ہونے سے پہلے اپنی پرانی جماعتوں میں تنظیمی تحرک اور ذمہ داریوں کا خاص طور پر پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔
اس طرح ان معاملات کو لاہور میں ڈیل کرنے کیلئے میاں محمود الرشید، سینیٹر اعجاز چودھری اور ڈاکٹر یاسمین راشد کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ جبکہ مرکزی قیادت میں جماعت کے سیکریٹری جنرل اسد عمر اور عمر سرفراز چیمہ مجموعی طور پر ٹاپ لسٹ میں ہیں۔ ذرائع کے مطابق جنوبی پنجاب کے کچھ اضلاع کو جیل بھرو تحریک میں برائے نام شامل کیا گیا ہے، جنہیں ممکنہ طور پر دوسرے مرحلے میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
جیل بھرو تحریک کے اعلان کے بعد اس کی حمایت کیلئے پی ٹی آئی کے اتحادی رہنما سابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے عمران خان سے ملاقات کرکے ان کی تحریک کی تائیدو حمایت کی۔ تاہم اپنے کارکن فراہم کرنے کی پیشکش نہیں کی۔ البتہ عمران خان پر واضح کیا ہے کہ ان کی تحریک کو پذیرائی ملے گی اور کارکن ان کی نہ صرف جیل بھرو تحریک بلکہ ہر کال پر بھر پور لبیک کہنے کیلئے تیار ہیں۔
ذرائع کے مطابق عمران خان کی طرف سے اب تک تیار کی جانے والی فہرست میں سابق وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار، اسد عمر سمیت کچھ اہم رہنماﺅں کے نام شامل نہیں ہیں، لیکن یہ نام کسی مرحلے پر بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ اس میں کسی کو تاحال چھوٹ دیئے جانے کا امکان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سابق اراکین اسمبلی کے نام فائنل رکھنے کا اختیار عمران خان نے اپنے پاس ہی رکھا ہے اور تمام سابق اراکین فیصلوں کے پابند بنائے گئے ہیں۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ایک جانب جیل بھرو تحریک کا شیڈول جاری کیا گیا تو دوسری جانب پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ شائد تحریک شروع ہونے سے پہلے نئے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کردیا جائے۔
اس ضمن میں پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر کا ہفتے کی شام کہنا تھا کہ ہمیں لگ رہا ہے کہ ہماری تحریک شروع ہونے سے پہلے ہی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا جائے۔ جس پر’ آف دی ریکارڈ‘ تبصرہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ ممی ڈیڈی کلاس ان خیالوں اور خوابوں سے باہر آنے کیلئے تیار نہیں، اس بیان کا ایک مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ اگر عدالت صوبائی اسمبلی کے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کردے گی تو پھر جیل بھرو تحریک موخر یا ختم کردی جائے گی۔ ممی ڈیڈی کلاس اور دوسری جماعتوں سے آکر عہدے لینے والے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہیں، ہم نے صرف خان کو دیکھنا ہے۔