احمد خلیل جازم :
پی ٹی آئی کی ’’جیل بھرو تحریک‘‘ کا آغاز بدھ سے ہونے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اعلان کے مطابق لاہور سے اس کا آغاز ہوگا اور سب سے پہلے مقامی قیادت گرفتاریاں دے گی۔
بعد ازاں پشاور سے کارکنان جمعرات کو گرفتاریاں دیں گے۔ راولپنڈی کے کارکن جمعہ، ملتان کے کارکن ہفتہ اور گوجرانوالہ کے کارکنان اتوار کے روز گرفتاریاں دیں گے۔ سرگودھا سے پیر اور ساہیوال سے منگل کے روز گرفتاریاں دی جائیں گی۔ لیکن جیل بھرو تحریک میں پہلے گرفتاری کون دے گا؟ فی الحال یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ گرفتاریاں کارکنان کے ہمراہ کون سے لیڈران دیں گے۔ گمان یہی کیا جارہا ہے کہ پہلے کارکنان کے ساتھ مقامی قیادت گرفتاریاں پیش کرے گی اور اس کے بعدسینئر قیادت کو سامنے آنے کے لیے مجبور کیا جائے گا۔
ذرائع نے جو سب سے اہم بات بتائی وہ یہ ہے کہ اس تحریک میں جنوبی پنجاب کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جنوبی پنجاب کی مقامی قیادت خاص طور پر سینئر قیادت سے اور کارکنان مقامی قیادت سے برگشتہ ہیں۔
کارکنان کا خیال ہے کہ پورے چار برس مقامی قیادت نے بھلائے رکھا اور اب جیل بھرو تحریک شروع ہو رہی ہے تو پھر ہم انہیں یاد آنا شروع ہوگئے ہیں۔ جب کہ مقامی قیادت سینئر قیادت پر اعتماد نہیں کر رہی اور اس کا کہنا ہے کہ سینئر قیادت نے اپنے مفادات کو اولیت دی۔ مقامی قیادت کا کوئی کام نہیں کیا۔ جس وجہ سے وہ کارکنان کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔
پی ٹی آئی کی جیل بھرو تحریک کے حوالے سے تجزیہ نگار مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے ذرائع سے جو بات معلوم ہو رہی ہے۔ وہ یہ ہے کہ جیل بھرو تحریک میں وہ جوش وخروش نہیں ہے، جو ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی کے اہم ذرائع نے بتایا کہ عمران خان، جیل بھرو تحریک کا اعلان تو کر چکے ہیں اور سینئر رہنما اعجاز چوہدری جیل بھرو تحریک کے فوکل پرسن بھی مقرر کیے جا چکے ہیں۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ ابھی تک عمران خان مطمئن نہیں ہیں۔ کیونکہ اس حوالے سے کسی قسم کی پلاننگ دکھائی نہیں دے رہی۔ چیئرمین خود زمان پارک تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں اور باقی قیادت اپنی من مرضی پر چل رہی ہے۔
اس وقت دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی عملی قیادت فواد چوہدری جیسے لیڈران کی مرہون منت دکھائی دے رہی ہے۔ یہ چند لوگ فیصلہ کرکے عمران خان کو آگاہ کردیتے ہیں۔ عمران خان کو اس وقت سب سے زیادہ خطرہ اپنی گرفتاری کا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر وہ گرفتار ہوتے ہیں تو کارکنان تو ان کا ساتھ دینے سے گریز نہیں کریں گے، البتہ سینئر قیادت اس وقت اپنے مفادت کے تحت پارٹی کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
عمران خان جانتے ہیں کہ اس وقت پارٹی میں کیا ہورہا ہے۔ لاہور سے مقامی قیادت نے گرفتاریاں دینی ہیں، لیکن ابھی تک یہ فائنل نہیں ہوسکا کہ مقامی قیادت میں کون سا لیڈر گرفتاری دینے کے لیے پہل کرے گا۔ اسی طرح جڑواں شہروں پنڈی اسلام آباد سے بھی مقامی قیادت کو ہی سامنے لایا جائے گا۔ راولپنڈی سے البتہ شیخ رشید پر عمران خان کو کافی اعتماد ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس تحریک میں شیخ رشید مقامی پی ٹی آئی قیادت سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اوراس تحریک کو کامیاب کرائیں گے۔
پنڈی اسلام آباد میں کارکنان کا جوش وخروش اتنا زیادہ نہیں، جتنا لاہور میں ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ اگر عمران خان بنی گالہ میں ہوتے تو شاید حالات مختلف ہوتے۔ لیکن لاہور سے اس تحریک کی قیادت میںوہ زور نہیں دکھائی دے رہا جو ہونا چاہیے۔ اس پر مستزاد عمران خان خود ابھی زخمی ٹانگ کی وجہ سے عملی طور پر اس میں شامل نہیں ہوسکیں گے۔
اگرچہ انہوں نے کہا ہے کہ وہ خود اس کی قیادت کریں گے اور گرفتاری دیں گے۔ لیکن سینئر پارٹی رہنما انہیں اس عمل سے باز رہنے کی تلقین کررہے ہیں۔ جیل بھرو تحریک میں سب سے اہم کردار جنوبی پنجاب کے کارکنان ہیں جو اس وقت مکمل طور پر مقامی اور سینئر قیادت سے نالاں ہیں۔ جنوبی پنجاب کے لوگوں نے بزدار جیسے نا اہل وزیر اعلیٰ کو بھگتنے کے بعد پرویز الٰہی کو بھگتا جنہوں نے گجرات سے آگے کا سوچا ہی نہیں۔ وہ پہلے ہی تخت لاہور کے خلاف تحریک انصاف کی سپورٹ میں آگے آئے تھے، لیکن پی ٹی آئی کے دور حکمرانی میں ان سے اغماض برتا گیا جس کی وجہ سے اب انہوں نے پی ٹی آئی سے امیدیں چھوڑ رکھی ہیں۔ اس کے باوجود سینئر قیادت کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح جنوبی پنجاب جیل بھرو تحریک میں اپنا حصہ ڈالے ۔
خیبر پختون سے بھی جیل بھرو تحریک کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگا۔ لیکن ڈیرہ اسماعیل خان سے علی امین گنڈا پور پر بھی مقامی قیاد ت نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ کارکنان کے تحفظات بھی شدت اختیار کرچکے ہیں۔ اسی طرح دیگر حلقوںمیں بھی کارکنان کا وہ جوش وخروش دکھائی نہیں دے رہا جو ایسی تحریک کے لیے ضروری ہے۔ عمران خان کو اصل حقائق بتائے نہیں جارہے۔ اس وقت عمران خان جہاں ایک جانب گرفتار کیے جانے کے خوف میں مبتلا ہیں، وہیں انہیں جیل بھرو تحریک کی چومکھی کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے اور وہ خود فی الحال زمان پارک تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔
تحریک انصاف کے دیرینہ کارکنان یہ بات اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ اس وقت پی ٹی آئی قیادت ہائی جیک ہونے کے قریب ہے۔ اور عمران خان کو ایسے لوگوں نے گھیر رکھا ہے جو پارٹی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ پرانے کارکنان اور لیڈران ان حالات میں جیل بھرو تحریک کے خلاف ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ایسی تحریک سے پارٹی کی مرکزی قیادت کا تونقصان ہو۔ لیکن مفاد پرست ٹولہ فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔