سفر روس ۔۔۔ جو ہم نے دیکھا ۔۔قسط نمبر 9
ریڈا سکوائر کی سیر کے دوران وفد کے ارکان دیدہ زیب عمارتوں اور روسی تاریخ کے عروج و زوال کی بھول بھلیوں میں کھو گئے ۔دراصل ہم میں سے ہر کوئی ہر منظر کو کیمرے میں قید کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس دوران ایک دو کے سوا باقی سب ایک دوسرے سے بچھڑ کر ہجوم میں گم ہو گئے ۔اسی ’’نفسا نفسی ‘‘کے عالم میں ہم بھی ایک تاریخی عمارت کو پس منظر میں لے کر سیلفی لینے کی ناکام کوشش کر رہے تھے کہ قدرے سیاہ بالوں والا ایک وجیہ چیچن نوجوان مسکراتے ہوئے آگے بڑھا،اور ہمارے ہاتھ سے موبائل فون لے کر ہماری تصویر بنائی۔ہم شکریہ ادا کرنے لگے تو پرجوش مصافحے کے ساتھ پوچھا "آر یومسلم ۔۔۔ پاکستانی ؟”
اثبات میں جواب ملنے پر اس کا چہرہ دمک اٹھا اور آنکھوں کی چمک کے ساتھ مصافحے والے ہاتھ کا دبا ئو بڑھ گیا۔ ہم اس سے علیک سلیک کرنے ہی لگے تھے کہ ہمارے گروپ کوآرڈنیٹر کی آواز آئی جو ہمیں گروپ فوٹو کے لیے بلا رہے تھے، کیونکہ بچھڑے ہوئے دیگر ساتھی بھی ’’سینہ چاکان چمن ‘‘سے آ ملے تھے ۔
اسی طرح کا ایک واقعہ ہمارے ایک سینئر ساتھی نے بھی سنایا ۔وہ اپنے ہوٹل کے باہر دھوپ سینک رہے تھے کہ ایک الجزائری شہری اسی قسم کے سوال کے ساتھ آگے بڑھا اور "پاکستانی اینڈ مسلم ” کی تصدیق کے بعد انہیں گلے لگا لیا ۔مزید گفتگو پر معلوم ہوا کہ وہ الجزائری بحریہ کا سینئرافسر ہے اور روسی حکام کے ساتھ دفاعی معاہدے پر دستخط کے لیے وفد کے ہمراہ آیا ہوا ہے۔وہ ایک پاکستانی سے مل کر بہت خوش تھا اور اس بات پر بھی کہ روس اور پاکستان دفاعی میدان میں ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں ۔اس کا کہنا تھا کہ اسلامی ملکوں کی اکثریت پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے اور ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہمارا برادر اسلامی ملک ایٹمی قوت ہے۔ہم پاکستان کی اس طاقت کو امت مسلمہ کی طاقت تصور کرتے ہیں ۔
اس گفتگو سے جہاں مسلم دنیا کے لوگوں کے دلوں میں پاکستان کے لیے موجزن جزبات اور غیر معمولی توقعات کا پتہ چلتا ہے وہیں اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ روس دفاعی ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی ترقی اور مہارت کو کس تیزی سے آگے منتقل کررہا ہے ۔اور کس طرح اس کے دفاعی بلاک میں شامل ہونے والے ممالک کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ بھی کہ مسلمان ملک روس کی نظر التفات کا "خاص نشانہ” ہیں۔ہم نے محسوس کیا کہ بالخصوص پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلق کے حوالے سے روس میں سرکاری اور غیر سرکاری ، ہردو سطح پر خاصے پرجوش جزبات پائے جاتے ہیں۔اس معاملے میں روس اپنے پرانے اتحادی ہندوستان کو زیادہ خاطر میں نہیں لا رہاحالانکہ بھارت ہمیشہ پاک روس تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتا رہا ہے ۔2016کی پاک روس فوجی مشقوں پر بھی بھارتیوں نے خاصا واویلا کیا تھا اور پرانے تعلق کی دہائی دے کر ان مشقوں کو منسوخ کرانے کیلیے پورا پورا زور لگا دیا تھا، مگر انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ حالانکہ یہ مشقیں ایسے وقت ہو رہی تھیں جب اڑی سیکٹر پر حملے کے باعث پاک بھارت کشیدگی عروج پر تھی۔ دراصل روسی اپنی ترجیحات کے معاملے میں بالکل واضح ہیں ۔وہ کسی قسم کے بیرونی دبائو یا اثر کو خاطر میں نہیں لاتے۔ دوستی اور دشمنی کھل کر کرتے ہیں اور مغرب کی طرح مکارانہ چالیں نہیں چلتے ،جو کرنا ہوتا ہے کر گزرتے ہیں ۔اگر امریکہ ان کے 4 سفارتکار ملک بدر کرے گا تو وہ بھی گنتی پوری کرنے میں منٹ نہیں لگاتے ۔برطانیہ کے معاملے میں چند برس پہلے کی چشمک اس کی ایک مثال ہے جب سی آئی اے ایجنٹ کی زہر سے ہلاکت کے معاملے پر سفارتی تناؤ پیدا ہوا اور ماسکو نے واشنگٹن کو ترکی بہ ترکی بلکہ منہ توڑ جواب دیا۔
تھینک ٹینکس سے پاکستانی وفد کی ملاقاتوں کے دوران یہ نقطہ نظر بھی سامنے آیا کہ پاکستان کے ساتھ دہائیوں کی رنجش مہینوں میں ختم نہیں ہوسکتی اور نہ پاک روس تعلقات کو بھارت کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے مگر اس بات پر سب کا اتفاق تھا کہ بدلتے حالات میں پاک روس تعلقات وقت کی ضرورت ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ بھارت روس دوستی کے حوالے سے جو تصور ہمارے ذہن میں تھا وہاں صورت حال اس سے بہت مختلف نظر آئی ۔بھارتیوں کی موجودگی ماسکو کی سڑکوں پر بھی اس طرح دکھائی نہیں دیتی۔ روس میں مجموعی طور پر بھارتی شہریوں کی تعداد تقریباً20 سے 22 ہزار بتائی جاتی ہے جو ایک ارب کی آبادی اور ستر سالہ تعلق کے لحاظ سے نہ ہونے کے برابر ہے ۔ روس میں پاکستانی اگرچہ تعداد میں کم سہی مگر سائبیریا جیسا سرد ترین خطہ بھی ان کی موجودگی کی گواہی دیتا ہے جہاں سال کے چھ ماہ سانسیں بھی منجمد ہو جاتی ہیں۔
روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ کسی سے پوشیدہ نہیں۔بلکہ زیادہ تر اس باب میں "اتار” ہی اتار رہا۔ اسٹیل ملز دونوں ملکوں میں دوستی کی واحد قابل ذکر نشانی سمجھی جاتی ہے۔ سوویت یونین کے خلاف افغان جہادکیلئے پاکستانی حمایت اور پاک امریکہ دوستی کے گہرے بادلوں نے دوستی کی اس سے زیادہ نشوونما ہونے ہی نہیں دی۔ لیکن حالیہ کچھ برسوں سے پاک روس تعلقات بہت بہتر ہوئے ہیں اور اس کا سہرا بھی ولادیمیر پیوٹن کے سر باندھنا پڑتا ہے کہ ان کے اقتدار میں ہی یہ ممکن ہوسکا۔ سوویت افغان جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستان کی جانب سے تعلقات میں گرم جوشی کی کوشش 1992 میں بعض روسی فوجیوں کی رہائی میں مدد کے ذریعے کی گئی۔ یہ فوجی افغان مجاہدین کی قید میں تھے۔ اس سلسلے میں بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دونوں نے ہی اپنے اپنے ادوار میں کردار ادا کیا۔لیکن 1994 میں جب پاکستان نے طالبان حکومت تسلیم کی تو تعاون کی یہ کھڑکی بھی فی الفور بند ہوگئی۔1997 میں میاں نواز شریف نے ایک با ر پھر روس کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔ اس کا نتیجہ یہ رہا کہ بھارت کے بعد جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو روس نے ان پر تنقید نہیں کی۔ گو کہ ماسکو کی جانب سےبھارتکے برعکس پاکستان کو مبارکباد کا پیغام بھی نہیں بھیجا گیا۔ اپریل 1999 میں میاں نواز شریف نے کریملن کا دورہ کیا۔ 25 برس میں کسی بھی پاکستانی وزیراعظم کا یہ پہلا دورہ ماسکو تھا۔
2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرانے کیلئے روس کو میدان میں آنا پڑا۔ پیوٹن اس معاملے میں ذاتی دلچسپی لے رہے تھے۔فروری 2003 میں پرویز مشرف نے ماسکو کا دورہ بھی کیا۔ یوں ایک بار پھر تعلقات میں بہتری کی امید پیدا ہوئی لیکن بات آگے نہ بڑھ سکی۔ بھارت اور روس اس وقت تک بہت قریب تھے۔ 2005 میں بھارت نے امریکہ کے ساتھ سول نیوکلیئر معاہدہ کیا۔ یہی معاہدہ آگے چل کر نیوکلیئر سپلائر گروپ میں بھارت کی شمولیت کا سبب بنا۔ نئی دہلی نے اگرچہ ماسکو کے ساتھ تعلقات بگاڑے نہیں لیکن اس پرانحصار کم کردیا اور یہیں سے روس کی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ ملا۔ 2007 میں روس کے وزیراعظم میخائل فریڈکوف3 روزہ دورے پر پاکستان آئے۔ 38 برس میں کسی بھی اعلیٰ روسی عہدیدار کا یہ پہلا دورہ پاکستان تھا۔ پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز سے ان کے تفصیلی مذاکرات ہوئے۔ پی پی دور میں بھی معاملات آگے بڑھے۔ صدر آصف زرداری اور وزیراعظم گیلانی کی روسی حکام بالخصوص پیوتن کے قریبی معتمد دمتری میدودوف سے ملاقاتیں ہوئیں۔ لیکن 2010 میں پیوتن نے ایک بیان میں کہا کہ بھارت کی وجہ سے روس پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات نہیں بڑھائے گا۔2011 میں پاکستان امریکہ سے دور ہونے لگا۔ اسی برس ریمنڈ ڈیوس اور سلالہ چیک پوسٹ حملے جیسے واقعات پیش آئے۔سلالہ حملے کی روس نے مذمت کی۔
2012 میں پیوٹن نے دورہ پاکستان کا اعلان کیا۔ وہ خود تو نہ آسکے لیکن اپنے وزیرخارجہ سرگئی لاروف کو بھیج دیا۔اسی برس آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے روس کاچار روزہ دورہ کیا۔ پاکستان اور روس کے درمیان اسٹریٹجک یا دفاعی تعلقات کا یہ ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ 2013 میں روسی بری افواج کے کمانڈر ان چیف کرنل جنرل ولادیمیر چرکن پاکستان آئے اور دفاعی تعاون کے لیے باقاعدہ مذاکرات شروع ہوگئے۔ابتدا میں روس سے ایم آئی 35 ہیلی کاپٹروں کی خریداری پر بات ہوئی۔ جنرل راحیل شریف کے دورہ ماسکو کے دوران 2015 میں چار روسی ہیلی کاپٹروں کی خریداری کا معاہدہ ہوا۔ یہ جنگی لڑاکا ہیلی کاپٹرز ہیں جو تین برس بعد پاکستان کے حوالے کیے گئے۔ اس کے بعد پاکستان نے مزید ایم آئی 35 خریدنےکی خواہش بھی ظاہر کی۔تاہم پاکستان اور روس کے درمیان سب سے اہم دفاعی پیش رفت اگست 2018 میں ہوئی جب پاکستانی فوجی افسران کی روس میں تربیت کا معاہدہ ہوا۔ یہ معاہدہ اس لحاظ سے بر محل ثابت ہوا کہ اس کے کچھ ہی دن بعد امریکہ نے پاکستانی افسران کی تربیت کا پروگرام بند کردیا۔ اسی طرح اپریل 2018 میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا دورہ ماسکو پاک روس تعلقات کے فروغ میں اہم سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے ،جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیاں دفاعی تعاون میں پیش رفت تیز تر ہوتی گئی اور اگست میں پاک روس بحری تعاون کے معاہدے پر بھی دستخط ہو گئے۔ پاکستان اور روس کے دفاعی تعلقات میں بہتری کا ایک فائدہ ہمیں جے ایف تھنڈر طیاروں کی صورت میں بھی ہوا ہے۔ اگرچہ یہ طیارہ پاکستان اور چین نے مشترکہ طور پر بنایا ہے تاہم اس کا انجن روسی ساختہ ہے اور شروع میں حکومت ماسکو اس انجن سمیت طیارے پاکستان کو دینے کیلئے چین کو اجازت نہیں دے رہی تھی۔(جاری ہے)