نواز طاہر:
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بالآخر کارکنوں کے ہجوم میں عدالت کے روبرو پیش ہوگئے ۔ ایک عدالت سے جعلی دستخطوں کی معذرت کرلی اور دوسری عدالت سے انسداد دہشت گردی کے تحت اسلام آباد میں درج مقدمہ میں تین مارچ تک حفاظتی ضمانت حاصل کرلی۔
عمران خان کی عدالت میں آمد کے موقع پر لاہور ہائیکورٹ کے احاطہ میں ایک جانب پی ٹی آئی کارکنان ہلڑ بازی کرتے رہے تو دوسری جانب مال روڈ سمیت ملحقہ سڑکوں پر ٹریفک جام رہا۔ کمرہ عدالت کا تقدس قطعی طور پر نظر انداز کردیا گیا اور سماعت کے دوران بھی تاریخ میں پہلی بار موبائل ٹیلی فونوں سے کمرہ عدالت اور مقدمے کی کارروائی کی عسکبندی کی جاتی رہی۔
پی ٹی آئی کارکنوں اور وکلا نے سیکیورٹی کے انتظامات اس حد تک تلپٹ کردیئے کہ کمرہ عدالت چالیس منٹ کی تگ و دو ، بحث مباحثے اور جھگڑوں کے باوجود خالی نہ کرایا جاسکا اور اس میں عدالتی احکامات کی بھی مکمل طور پر تعمیل نہ ہوسکی۔ واضح رہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے عمران خان کو جعلی دستخطوں کی وضاحت کے لئے طلب کیا تھا۔ اور عمران خان کے وکلا عمران خان کو صحت اور سیکیورٹی کے مسائل سے عدالت میں پیش کرنے سے بچانے کی بھرپور کوشش کرتے رہے اور عدالت کی طرف سے توہین عدالت کی کارروائی کے عندیہ پر وہ عدالت میں پیش ہونے پر رضامند ہوئے تھے۔
عمران خان کو عدالت میں آنے تک دونوں عدالتوں نے دو بار سے زائد کارروائی ملتوی کی اور ایک مرحلے پر ڈویژن بنچ نے خبردار کیا کہ اگر عمران خان اگلے دس منٹ میں پیش نہ ہوئے تو عدالت ان کی ضمانت کی درخواست نہیں سنے گی۔ اس وقت عمران خان مال روڈ پر ریلی کے ساتھ رواں تھے۔ جبکہ مال روڈ ان کی آمد کے لئے دیگر ٹریفک کے لئے بند کیا گیا تھا۔
مقررہ وقت دوبجے کے بجائے مختلف التوا کے بعد چھ بجے کے بعد ہائیکورٹ پہنچے اور گاڑی میں بیٹھے رہے۔ ان کے وکلا نے عدالت سے درخواست کی کہ عمران خان کی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے حاضری لگائی جائے لیکن عدالت نے ان کی یہ استدعا رد کردی جس پر وکلا نے عذر پیش کیا کہ عدالت کے باہر سیکورٹی کے انتظامات درست نہیں، شدید رش ہے۔ جس پر عدالت نے ایس پی سیکورٹی کو ہدایت کی کہ وہ خود عمران خان کو کمرہ عدالت میں لائیں جس پر عمران خان گاڑی سے اتر کر کمرہ عدالت پہنچے ۔ اس وقت بھی وکلا اور کارکنوں نے احاطہ عدالت ، کمرہ عدالت اور تمام برآمدے کو نعرہ بازی کرتے ہوئے مچھلی بازار بنائے رکھا تھا۔
عمران خان جب کمرہ عدالت میں چل کر پہنچے تو کارکنوں نے اس مرحلے پر بھی نعرہ بازی کی تاہم عمران خان نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ وہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔ انہیں ڈاکٹروں نے مزید آرام کا مشورہ دیا ہے اور 20 فروری کو ان کا دوبارہ چیک اپ ہونا ہے۔ ڈویژن بنچ نے 3 مارچ تک ان کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی تاکہ وہ اسلام آباد کی عدالت میں ہوسکیں۔
اس کے ساتھ ہی جناب جسٹس طارق سلیم شیخ کی عدالت میں ایک بار پھر شدید رش ہوگیا تو عمران خان کے وکلا کا داخلہ بھی ناممکن ہوگیا۔ جس پر ان کے وکیل خواجہ احمد طارق رحیم نے روسٹرم پر آکر اعلان کیا کہ جج صاحب کا حکم ہے کہ جب تک کمرہ عدالت خالی نہیں ہوگا تب تک وہ کیس نہیں سنیں گے۔ لیکن وکلا اور کارکنوں نے کمرہ عدالت سے نکلنے سے انکار کردیا۔ اسی دھکم پیل میں عمران خان کمرہ عدالت میں پہنچے تو دوبارہ کمرہ خالی کرانے کی کوشش کی گئی مگر عدالت میں موبائل فونز پر فلمیں بنانے والے کارکنوں نے وکلا عدالتی عملے اور پولیس کا کہنا ماننے سے انکار کردیا۔
البتہ شبلی فراز اور فرح حبیب نے پولیس کی مدد سے کسی حد تک کمرہ خالی کرالیا اور اسی دوران کارکنوں اور وکلا کو یہ پیشکش بھی کی گئی کہ وہ عمران خان کے ساتھ سیلفی بناتے جائیں اور کمرہ عدالت سے نکلتے جائیں۔ لیکن وکلا اور کارکنوں نے عمران خان سمیت سبھی کی درخواستیں رد کردی تو پولیس کو ہلکی طاقت استعمال کرنا پڑی مگر اس دوران بھی من پسند وکلا اور کارکن کمرہ عدالت سے نکلنے کے لیے تیار نہیں۔
یہاں تک جب مسٹر جسٹس طارق سلیم کمرہ عدالت میں آئے تو انہوں نے کمرہ مکمل خالی ہونے تک کیس سننے سے معذرت کرلی۔ اس طرح ایک بار پھر وکلا اور کارکنوں کی منت سماجت کرکے کسی حد تک کمرہ عدالت میں رش کم کیا گیا۔ جس کے بعد معزز جج کمرہ عدالت میں واپس آئے۔